عمرہ پر میاں بیوی گئے اور شوہر فوت ہوجائے تو عدت کے احکام

عمرہ پر میاں بیوی گئے اور شوہر فوت ہوجائے تو عدت کے احکام

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ پاکستان سے ایک فیملی عمرہ کرنے گئی، وہاں شوہر کا انتقال ہوگیا، واپسی کی فلائٹ میں ابھی پندرہ دن ہیں، عدت کا کیا حکم ہوگا؟ پندرہ دن وہاں عدت کے طور پر گزارے اور باقی یہاں؟ یا کیا کرے؟ نیز ایمبیسی والوں نے کہا ہے کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانے کے لیے بیوی کو آنا پڑے گا، تو کیا بیوی جا سکتی ہے؟”بینوا توجروا“بیان فرما کر اجر پائیے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اصل حکم جاننے سے پہلے یہ بات ذہن نشین فرمالیجیے کہ اگر دوران سفر عورت کے شوہر کا انتقال ہو جائے اور عورت شہر میں ہو جیسے مذکورہ صورت، تو ایسی عورت کے لیے شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہیں شہر میں ہی عدت پوری کرے، لیکن چونکہ آج کل سعودی حکومت کے نظام آمد و رفت کے پیش نظر ویزہ ڈیٹ مکمل ہونے پر سفر کرنا ضروری ہے، اس لیے یہاں رہ کر عدت پوری کرنا تو نہایت دشوار ہے؛ اس لیے فقہاء کرام نے دفع حرج و مشقت کے پیش نظر فرمایا کہ مکہ پاک یا مدینہ منورہ کے جس ہوٹل میں رہائش کے دوران عورت بیوہ ہوجائے، تو فلائٹ کی واپسی والے دن تک وہیں عدت گزارے یعنی قیام کے بقیہ دن بھی یہیں گزارے اور پھر عدت کے بقیہ دن اپنے وطن میں پورے کرے۔

لیکن چونکہ اسکے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے اور اس کا وطن شرعی مسافت پر واقع ہے اس لیے واپس آنے میں تفصیل ہے:

پہلی صورت یہ ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہے تو اسکے ساتھ واپس آئے، دوسری صورت یہ ہے کہ محرم ساتھ نہیں ہے تو اگر محرم کسی طرح بلانا ممکن ہے تو اسے بلائے اور اس کے ساتھ جائے، تیسری صورت یہ ہے کہ کسی محرم کو بلانا ممکن نہیں تو آخری صورت یہ ہے کہ گروپ میں موجود ایسی عورتیں کہ جو سمجھدار اور نیک پارسا ہوں ان کے ساتھ واپس آئے اور واپسی میں جو گھر شوہر نے رہائش کے طور پر دیا ہوا تھا اس میں عدت کے بقیہ دن گزارے۔

نیز مذکورہ صورتحال میں اگر عورت کے ایمبیسی والوں کے پاس جائے بغیر ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانا ممکن ہو، تو پھر عورت کے لیے جانا منع ہے، لیکن اگر اس عورت کے بغیر ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانا ممکن نہ ہو، تو پھر عورت جاسکتی ہے، لیکن اس میں یہ ضروری ہے کہ یہ نکلنا دن ہی دن میں ہو۔ اس لیے کہ وفات کی عدت میں عورت ضرورت و حاجت کے پیش نظر گھر سے دن میں اور رات کے کچھ حصے تک نکل سکتی ہے۔

در مختار میں ہے:

“(أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام”.

ترجمہ: اور اگر عورت شہر میں ہو یا دیہات میں ہو لیکن اقامت کرنا ممکن ہو تو وہیں عدت پوری کرے اگر محرم ساتھ نہ ہو اس پر علما کا اتفاق ہے، اور امام اعظم علیہ الرحمہ کے نزدیک محرم کی صورت میں بھی یہی حکم ہے۔(درمختار، کتاب الطلاق، جلد5، صفحہ232-233، دار المعرفۃ، بیروت)

رد المحتار میں ہے:

“أبانها، أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت (وإن كانت تلك) أي مدة السفر (من كل جانب) منهما ولا يعتبر ما في ميمنة وميسرة، فإن كانت في مفازة (خيرت) بين رجوع ومضي (معها ولي، أو لا في الصورتين، والعود أحمد) لتعد في منزل الزوج (و) لكن (إن مرت) بما يصلح للإقامة كما في البحر وغيره. زاد في النهر: وبينه وبين مقصدها سفر (أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن كان (وتنتقل المعتدة) المطلقة بالبادية فتح (مع أهل الكلأ) في محفة، أو خيمة مع زوجها (إن تضررت بالمكث في المكان) الذي طلقها فيه فله أن يتحول بها وإلا لا وليس للزوج المسافرة بالمعتدة ولو عن رجعي بحر”

ترجمہ: دوران سفر شوہر نے طلاق بائن دے دی یا شوہر کا انتقال ہو گیا اور عورت کے گھر اور شہر کا درمیان شرعی مسافت نہیں ہے تو گھر واپس آئے، اور اگر شہر تک شرعی مسافت ہے اور منزل مقصود تک شرعی مسافت نہیں ہے، تو اب منزل مقصود کو چلی جائے، اور اگر دونوں جانب شرعی مسافت ہو اس میں دائیں، بائیں کی مسافت کا اعتبار نہیں ہے اور وہاں آبادی بھی نہ ہو تو اسے اختیار ہے، چاہے تو منزل مقصود پر چلی جائے اور چاہے تو واپس آ جائے ولی ساتھ ہو یا نہ ہو اور بہتر واپس آکر شوہر کے گھر میں عدت گزارنا ہے، اور اگر عورت کے گھر اور منزل مقصود کے مابین شرعی مسافت ہو یا اس وقت عورت شہر میں ہو یا دیہات میں ہو لیکن اقامت کرنا ممکن ہو تو وہیں عدت پوری کرے اگر محرم ساتھ نہ تو بالاتفاق، اور امام اعظم علیہ الرحمہ کے نزدیک محرم کی صورت میں بھی یہی حکم ہے، پھر محرم ہو تو اس کے ساتھ سفر کرے۔(درمختارمع ردالمحتار، کتاب الطلاق، جلد5، صفحہ232-233، دار المعرفۃ، بیروت)

فتاوی علیمیہ ہے:

”ایسی عورت کے لئے اصل حکم تو یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جس مکان میں سکونت کے دوران بیوہ ہوئی اس میں عدت وفات پوری کرے۔ ۔۔مگر آج کل سعودی حکومت کے نظام آمد و رفت کے پیش نظر مدینہ منورہ میں رہ کر عدت پوری کرنا نہایت دشوار ہے اور اپنے وطن آنے میں بھی سخت مشقت ہے لہذا ۔۔۔ بصورت مجبوری اپنے وطن۔۔۔شوہر کے گھر عدت پوری کرے۔ وﷲ تعالی اعلم۔“(فتاوی علیمیہ، کتاب الحج، جلد1، صفحہ484-485، مطبوعہ: شبیر برادرز)

بحر الرائق میں ہے:

“الظاهر من كلاهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا ولو كانت قادرة على النفقة”

ترجمہ: علما کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ وفات کی عدت میں عورت کے لیے دن میں نکلنے کی اجازت ہے، اگرچہ نفقہ پر قادر ہو۔ (بحر الرائق، کتاب الطلاق، فصل فی الاحداد، جلد4، صفحہ259، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

تفسیر کبیر میں ہے:

“أما الامتناع عن الخروج من المنزل فواجب ألا عند الضرورة والحاجة. اھ۔”.

ترجمہ: وفات کی عدت میں عورت کا ضرورت اور حاجت کے علاوہ گھر سے نہ نکلنا واجب ہے۔ (تفسیر کبیر، پ3، البقرۃ: تحت الآیۃ:234۔ جلد6، صفحہ138، دار الفکر)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”عورت عدت وفات میں بضرورت باہر جاسکتی ہے کہ رات کا اکثر حصہ شوہر کے مکان پر گزارے۔ “(فتاوی رضویہ، کتاب الطلاق، جلد13، صفحہ317، ملخصا، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

واللّٰه تعالی أعلم بالصواب۔

کتبه: ابو معاویہ محمد ندیم عطاری مدنی حنفی

مؤرخہ 03ذوالقعدۃ الحرام 1444ھ بمطابق 25مئی 2023ء، بروز جمعرات

اپنا تبصرہ بھیجیں