عرفہ کے روزے کے متعلق اہم مسائل

عرفہ کے روزے کے متعلق اہم مسائل

کیا فرماتےہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ

1۔عرفہ کے روزے کی فضیلت کیا ہے؟

2۔نیز اس دن کو عرفہ کیوں کہا جاتا ہے؟

3۔ اس دن جو روزہ رکھنا ہے یہ سعودیہ کے اعتبارسے رکھنا ہے یا ہر ملک اپنے اعتبارسے نو ذوالحجہ کو روزہ رکھے گا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

1۔احادیث میں نو ذوالحجہ جسے یوم عرفہ بھی کہا جاتا ہے اس کا روزہ رکھنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا” صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ “

ترجمہ:مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔ (صحیح مسلم ،کتاب الصیام،باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام۔۔۔الخ،جلد2،صفحہ818،حدیث1162،دار إحياء التراث العربي،بيروت)

مسند ابو یعلیٰ میں ہے

” عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ غُفِرَ لَهُ سَنَتَيْنِ مُتَتَابِعَتَيْنِ» “

ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا : جس نے عرفہ کے دن روزہ رکھا اس کے مسلسل دوسالوں کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ( مسند ابو یعلیٰ، من مسند الزبير بن العوام ، جلد13،صفحہ542،حدیث7548،دار المأمون للتراث،دمشق)

حج کرنے والے پر جو عرفات میں ہے، اُسے عرفہ کے دن کا روزہ مکروہ ہے۔ سنن ابن ماجہ کی حدیث پاک ہے”عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فِي بَيْتِهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ، بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ بِعَرَفَاتٍ» “

ترجمہ:حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے گھر میں حاضر ہوا تو عرفات میں عرفہ کا روزہ رکھنے کے حوالے سے تو پوچھاتو آپ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرفات میں عرفہ کو روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔

(سنن ابن ماجه،كتاب الصيام،باب صيام يوم عرفة،جلد1،صفحہ551،حدیث1732،دار إحياء الكتب العربية،الحلبي)

2۔نو(۹)ذی الحجہ کو ”یومِ عرفہ“کہنے کی کئی وجوہات علمائے کرام نے ارشاد فرمائی ہیں چندہ پیش خدمت ہیں:

(1) عرفہ کا مطلب پہچاننا ہے۔ اسی عرفات کے میدان میں حضرت آدم و حوا کی تین سو برس کی جدائی کے بعد ملاقات ہوئی اور ایک دوسرے کو پہچانا،اس لیے اس کو عرفہ کہا جاتا ہے۔

(2) حضرت ابراہیم کو آٹھ(۸) ذی الحجہ کی رات خواب میں نظر آیا کہ وہ اپنے بیٹے کوذبح کر رہے ہیں، تو ان کو اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےمیں کچھ تردد ہوا، پھرنو(۹)ذی الحجہ کو دوبارہ یہی خواب نظرآیا تو ان کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالی کی طرف سےہی ہے، چونکہ حضرت ابراہیم کویہ معرفت اور یقین نو(۹)ذی الحجہ کو حاصل ہوا تھا، اسی وجہ سے نو(۹) ذی الحجہ کو ”یومِ عرفہ“ کہتے ہیں۔

(3) نو ذی الحجہ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نےحضرت ابراہیم علیہ السلام کوتمام ”مناسکِ حج“(حج کے ارکان)سکھلائے تھے، مناسکِ حج کی معرفت کی مناسبت سے نو(۹)ذی الحجہ کو ’یومِ عرفہ‘ کہتے ہیں۔

(4) نو(۹) ذی الحجہ کو حج کرنے والے حضرات چونکہ میدانِ عرفات میں وقوف کے لیے جاتے ہیں،تو اس مناسبت سے نو(۹)ذی الحجہ کو “یومِ عرفہ” بھی کہہ دیتے ہیں۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”عرفہ عرفٌ سے بنا بمعنی پہچاننا،نویں تاریخ کو بھی عرفہ کہتے ہیں اور عرفات میدان کو بھی مگر لفظ عرفات صرف میدان کو کہا جاتا ہے نہ کہ اس دن کو،رب فرماتاہے”فَاِذَاۤ اَفَضْتُمۡ مِّنْ عَرَفٰتٍ“چونکہ اس جگہ کا ہر حصہ عرفہ ہے اس لیے اسے جمع عرفات کہا جاتا ہے۔اس جگہ کو چند وجہ سے عرفہ کہتے ہیں:

(۱)اسی جگہ حضرت آدم و حوا کی ملاقات تین سو برس کے فراق کے بعد ہوئی اور ایک دوسرے کو پہچاننا(۲)اسی جگہ جبرئیل امین نے جناب خلیل کو ارکان حج سکھائے اور آپ نے فرمایا عَرَفْتُ میں نے پہچان لیا(۳)یہ جگہ تمام دنیا میں جانی پہچانی ہے کہ یہاں حج ہوتا ہے یعنی مشہور ہے(۴)رب تعالیٰ اس دن حاجیوں کو مغفرت کا تحفہ دیتا ہے۔عرف بمعنی عطیہ،رب فرماتاہے”عَرَّفَھَالَھُمْ“(۵)تمام حجاج وہاں پہنچ کر اپنے گناہوں کا اقرار وا عتراف کرتے ہیں۔خیال رہے کہ قیام عرفہ حج کا رکن اعلٰی ہے جسے یہ مل گیا اسے حج مل گیا۔ “(مراۃ المناجیح،جلد4،صفحہ139،نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

3۔ہر ملک والا اپنے ملک کے اعتبار سے نو ذوالحجہ کو عرفہ کا روزہ رکھے گا،سعودیہ کے مطابق اگر روزہ رکھا تو درست نہ ہوگا۔ اس اختلاف کا سبب دراصل رویت ہلال کی رو سے اور مختلف ممالک میں قمری تاریخ کے مختلف ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ فی زمانہ مختلف ممالک اپنے طور پر چاند دیکھنے کے اعتبار سے عید و روزوں کا اہتمام کرتے ہیں ،یہ اب کا مسئلہ نہیں بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی ایسا ہی ثابت ہے،جس میں کوئی حرج نہیں۔بعض جاہل لوگ بلاوجہ اس رؤیت کے مسئلہ کو مولویوں کی لڑائی بتاتے ہیں۔صحیح مسلم میں ایک حدیث پاک ہے:

ملک شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت باقی لوگوں نے جمعہ کی رات چاند دیکھ کر روزہ رکھا،اور مدینہ منورہ کے لوگوں نے اس کے اگلے دن ہفتہ کی شام کو چاند دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کیا۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا”فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ، أَوْ نَرَاهُ “ترجمہ: ہم تو تیس روزے پورے رکھیں گے یا پھر چاند دیکھ کر عید کر لیں گے۔

حضرت کریب کہنے لگے، کہ کیا معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں؟تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے”لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “ترجمہ: نہیں،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے۔

(صحیح مسلم ، کتاب الصیام،باب بيان أن لكل بلد رؤيتهم وأنهم إذا رأوا الهلال ببلد لا يثبت حكمه لما بعد عنهم،جلد2،صفحہ765،حدیث1087،دار إحياء التراث العربي،بيروت)

واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبہ

ابواحمد مفتی محمد انس رضا قادری

08ذوالحجہ 1444ھ 27 جون2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں