طلاق کے متعلق اسلامی تعلیمات

طلاق کے متعلق اسلامی تعلیمات

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر میاں بیوی کا اکٹھے رہنا دشوار ہوجائے تو کس طریقے سے طلاق دینی چاہیے،اسلامی تعلیمات اس حوالے سے کیا ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

صورت مسئولہ میں سب سے پہلے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ میاں بیوی میں مفاہمت ہو جائے اگر بڑوں کو درمیان میں بٹھا کر صلح کروائی جا سکتی ہو پہلے اس کی کوشش کرنی چاہیے اور معمولی باتوں کو نظر انداز کرکے گھر بسانے کی کوشش کرنی چاہیے،کیونکہ طلاق اللہ پاک کے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے اور شیطان کو خوش کرنے والا عمل ہے۔البتہ اگر اکٹھے رہنے کی کوئی صورت بھی نہ بن سکے تو شوہر کو چاہیے کہ وہ طلاق احسن دے(یعنی فقط ایک طلا ق اس طہر میں دے جس میں بیوی سے صحبت نہ کی ہو) یا طلاق حسن دے(یعنی ہر ماہ ایک طلاق)، کیونکہ طلاق کی تین قسمیں ہیں احسن حسن اور بدعت، طلاق بدعت(حیض میں طلاق دینا یا اکٹھی دو یا تین ) دینا گناہ ہے اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے۔

ایک طلاق دے کر بیوی سے دور رہ کر غوروفکر کرنا چاہیے کہ اب رجوع کرنا ہے یا نہیں،اگر عدت میں رجوع کرلیا تو درست ہےورنہ عدت کے بعد عورت ایک ہی طلاق سے نکاح سے نکل جائے گی اور آگے کسی اور سے نکاح کرسکے گی اور دوبارہ پہلے شوہر سے بھی نکاح کی گنجائش بغیر حلالے کے رہے گی۔اس لیے جب بھی طلاق کی نوبت آئے تو صرف ایک ہی دینی چاہیے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے

(وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَاۚ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَاؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا)

ترجمہ کنزالعرفان: اور اگر تم کو میاں بیوی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک مُنْصِفْ مرد کے گھروالوں کی طرف سے بھیجو اور ایک مُنْصِفْ عورت کے گھروالوں کی طرف سے (بھیجو) یہ دونوں اگر صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا ،خبردار ہے۔(پارہ 5 سورۃ النساء آیت نمبر 35)

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے

(اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ)

ترجمہ کنزالعرفان: طلاق دو بار تک ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یااچھے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔(پارہ 2، سورۃ البقرہ آیت نمبر 229)

مسلم شریف میں ہے

”وَعَنْ أبي هريرة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، لَنْ تَسْتَقِيمَ لَكَ عَلَى طَرِيقَةٍ، فَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَبِهَا عِوَجٌ، وَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا وَكَسْرُهَا طَلاقُهَا“

ترجمہ: روایت ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی وہ روش میں سیدھی ہر گز نہ ہوگی تو اگر تم اس سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس سے نفع حاصل کرو حالانکہ اس میں ٹیڑھ ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اس کا توڑنا اس کا طلاق ہے۔(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء حدیث 1468)

سنن ابو داؤد میں ہے

”ابغض الحلال الی اﷲتعالٰی الطلاق”

ترجمہ : حلال چیزوں میں سے طلاق دینا اﷲتعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے۔(سُنن ابوداؤد ، باب فی کراہیۃ الطلاق ،جلد1صفحہ296، آفتاب عالم پریس ،لاہور )

بخاری شریف میں ہے:

”عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ “

ترجمہ: روایت ہے حضرت عبدﷲ ابن عمر سے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو بحالت حیض طلاق دیدی تو حضرت عمر نے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تب رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں بہت ناراض ہوئے پھر فرمایا وہ رجوع کرلیں پھر اسے روکیں حتی کہ پاک ہوجائے پھر حیض آئے پھر پاک ہوجائے پھر اگر ان کی رائے اسے طلاق دینے کی ہو تو پاکی کی حالت میں انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دیں پس یہ ہی وہ عدت ہے کہ ﷲ نے حکم دیا کہ عورتوں کو اس لحاظ سے طلاق دی جائے۔(صحیح البخاری کتاب الطلاق حدیث 5251)

سنن نسائی میں ہے

”سَمِعْتُ مَحْمُودَ بْنَ لَبِيدٍ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ جَمِيعًا، فَقَامَ غَضْبَانًا، ثُمَّ قَالَ: “أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اللَّهِ وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟” حَتَّى قَامَ رَجُلٌ، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَقْتُلُهُ؟“

ترجمہ:روایت ہے محمود ابن لبید سے فرماتے ہیں رسول ﷲ کو اس شخص کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی عورت کو ایک دم تین طلاقیں دے دیں تو آپ غصہ میں کھڑے ہوگئے۔ پھر فرمایا کیا وہ ﷲ عزوجل کی کتاب سے کھیل کرتا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان ہوں حتی کہ ایک شخص اٹھا پھر بولا یا رسول ﷲ کیا میں اسے قتل نہ کردوں؟(سنن نسائی، کتاب الطلاق باب الثلاث المجموعۃ وما فیه من التغلیظ حدیث 3401)

مراۃ المناجیح میں اس حدیثِ پاک کے تحت ہے: “اس طرح کہ ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں دے دیں یا اس طرح کہہ دیا تجھے تین طلاق یا اس طرح کہ کہا تجھے طلاق، طلاق،طلاق۔کیونکہ اس طرح طلاق دینا بدعت ہے چاہیے یہ کہ اگر تین طلاقیں دینا ہی ہوں تو ہر طہر میں ایک طلاق دے تین طہروں میں تین طلاقیں اور بہتر یہ ہے کہ صرف ایک ہی طلاق دے تین طلاق دے ہی نہیں۔

اس میں انتہائی غضب کا اظہار ہے یعنی تین طلاقیں یکدم دینا کتاب اﷲ کا مذاق اڑانا ہے کہ رب تعالٰی فرماتاہے:”الطَّلاقُ مَرَّتَانِ”اور یہ ایک دم طلاقیں دے رہا ہے۔ خیال رہے کہ امام ابوحنیفہ،شافعی،احمد،مالک اور جمہور علماء کے نزدیک بیک وقت تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہوتی ہیں۔۔۔۔ بہت سی احادیث ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے یک دم تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہوتی ہیں ابھی گزر چکا کہ ابو رکانہ سے حضور نے قسم لی کہ کیا تم نے صرف ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی ؟ اس کی پوری اور نفیس تحقیق ہماری کتابطلاق الادلۃ میں دیکھئے۔

شاید یہ صاحب اجازت قتل مانگنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہوں گے آپ کا خیال یہ ہوا ہوگا کہ کتاب ﷲ سے کھیلنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچانا کفر ہے اور مسلمان کا کفر ارتداد ہوتا ہے اور مرتد کی سزا قتل ہے مگر ان کے قتل کی اجازت نہ دی گئی کیونکہ حضور کو دکھ پہنچانا اور آپ کو رنجیدہ کرنے کی غرض سے کوئی کام کرنا تو کفر ہے مگر کسی کے کسی کام سے حضور کو دکھ پہنچ جانا کفر نہیں دکھ پہنچا نے اور پہنچ جانے میں بڑا فرق ہے۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ تین طلاقیں ایک دم دے دینا برا ہے لیکن اس سے تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی جیسے بحالت حیض طلاق دینا حرام ہے مگر اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ایک دم تین طلاقیں دینا اس لیے بھی برا ہے کہ اس میں پھر دوبارہ رجوع کا موقع نہیں ملتا پھر خاوند پچھتاتا ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:5 حدیث نمبر:3292)

عالمگیری میں ہے

” واما تقسیمه فانه نوعان سنی و بدعی،۔۔۔ اما الطلاق السنی۔۔۔۔ فنوعان حسن و احسن، فالاحسن ان یطلق امراته واحدۃ رجعیۃ فی طھر لم یجامعھا فیه ثم یترکھا حتی تنقضی عدتھا او کانت حاملا قد استبان حملھا، والحسن ان یطلقھا فی طھر لم یجامعھا فیه ثم فی طھر آخر اخری ثم فی طھر آخر اخری“

ترجمہ: جب کہ طلاق کی تقسیم تو اس کی دو قسمیں ہیں طلاق سنت اور طلاق بدعت، جب کہ طلاق سنت تو اس کی دو قسمیں ہیں طلاق حسن اور طلاق احسن، تو طلاق احسن یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دے ایسے طہر (یعنی پاکی کے دنوں میں) جس میں بیوی سے صحبت نہ کی ہو پھر اسے چھوڑ دے یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہو جائے یا وہ حاملہ ہو تو اس کا حمل ظاہر ہو جائے، اور طلاق حسن یہ ہے کہ بیوی کو ایک طلاق رجعی دے ایسے طہر میں جس میں صحبت نہ کی ہو پھر دوسرے طہر میں دوسری اور تیسرے میں تیسری طلاق دے۔(فتاویٰ عالمگیری کتاب الطلاق، جلد1 صفحہ382، دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”طلاق کی تین قسمیں ہیں: (۱) حسن۔ (۲) اَحسن۔ (۳) بِدعی۔ جس طہر میں وطی نہ کی ہو اُس میں ایک طلاق رجعی دے اور چھوڑے رہے یہاں تک کہ عدّت گزر جائے، یہ احسن ہے۔ اور غیر موطؤہ کو طلاق دی اگرچہ حیض کے دنوں میں دی ہو یا موطؤہ کو تین طہر میں تین طلاقیں دیں۔ بشرطیکہ نہ ان طہروں میں وطی کی ہو نہ حیض میں یا تین مہینے میں تین طلاقیں اُس عورت کو دیں جسے حیض نہیں آتا مثلاً نا بالغہ یا حمل والی ہے یا ایاس کی عمر کو پہنچ گئی تو یہ سب صورتیں طلاق حسن کی ہیں۔ حمل والی یا سن ایاس والی کو وطی کے بعد طلاق دینے میں کراہت نہیں۔ یوہیں اگر اُس کی عمر نو سال سے کم کی ہو تو کراہت نہیں اور نو برس یا زیادہ کی عمر ہے مگر ابھی حیض نہیں آیا ہے تو افضل یہ ہے کہ وطی و طلاق میں ایک مہینے کا فاصلہ ہو۔ بدعی یہ کہ ایک طہر میں دو یا تین طلاق دیدے، تین دفعہ میں یا دو۲ دفعہ یا ایک ہی دفعہ میں خواہ تین بار لفظ کہے یا یوں کہہ دیا کہ تجھے تین طلاقیں یا ایک ہی طلاق دی مگر اُس طہر میں وطی کرچکا ہے یا موطؤہ کو حیض میں طلاق دی یا طہر ہی میں طلاق دی مگر اُس سے پہلے جو حیض آیا تھا اُس میں وطی کی تھی یا اُس حیض میں طلاق دی تھی یا یہ سب باتیں نہیں مگر طہر میں طلاق بائن دی۔ (درمختار وغیرہ)“(بہار شریعت جلد2 حصہ8 صفحہ113 مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسوله اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآله وسلّم

کتبہ

محمد عابد مدنی

14 محرم الحرام 1445 ھ 2 اگست 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں