شوہر کا کہنا:”آج بھی طلاق ہے کل بھی طلاق ہے پرسوں بھی“

شوہر کا کہنا:”آج بھی طلاق ہے کل بھی طلاق ہے پرسوں بھی“

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو یوں کہا:” میری طرف سے تجھے آج بھی طلاق ہے کل بھی طلاق ہے پرسوں بھی طلاق ہے۔“شوہر کے اس جملے سے کتنی طلاقیں ہوں گی؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

بیان کی گئی صورت میں شوہر کے ان الفاظ کہ ”میری طرف سے تجھے آج بھی طلاق ہے کل بھی طلاق ہے پرسوں بھی طلاق ہے“سے ایک طلاق واقع ہوئی کیونکہ آج اورکل اورپرسوں میں کسی دن کافاصلہ نہیں اورموجودہ زمانہ پہلے ذکرکیاہے لہذایہ ایک وقت کی طرح ہوئے توطلاق بھی ایک ہی ہوگی ۔

فتاوی قاضی خان میں ہے:

”ولو قال أنت طالق الیوم غدا طلقت فی الحال والاصل فیہ انہ اذاذکر وقتین لیس بینھما حرف العطف یقع الطلاق فی الوقت المذکور اولا ویبطل ذکر الثانی ولو قال لھا أنت طالق الیوم واذا جاء غد یقع للحال واحدۃ فاذا جاء غد وھی فی العدۃ یقع أخری“

ترجمہ اگر خاوند نے کہا تجھے آج کل طلاق ہے فی الحال ایک طلاق واقع ہو جائے گئی۔ قاعدہ یہ ہے کہ جب دو وقت ذکر کیے ان میں حرف عطف نہ ہو جو وقت اول مذکور ہوا ہے اس سے طلاق،واقع ہو جائے گئی، ثانی باطل ہو جائے گا اور اگر کہا تجھے آج طلاق ہے اور جب کل آئے، ایک فورا واقع ہو جائے گئی دوسری جب کل آئے گا۔(قاضی خان،جلد 1،صفحہ 410، مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

درمختارمیں ہے

”(وفي أنت طالق اليوم غدا أو غدا اليوم اعتبر اللفظ الأول) ولو عطف بالواو يقع في الأول واحدة وفي الثاني ثنتان والاصل انہ متی اضاف الطلاق لوقتین کائن ومستقبل بحرف عطف فان بدابالکائن اتحداوبالمستقبل تعدد“

ترجمہ:شوہرنے مردسے کہاتجھے آج ،کل طلاق ہے یاکل،آج طلاق ہے (یعنی دونوں زمانوں کے درمیان حرف عطف ذکرنہیں کیا)اس صورت میں پہلے لفظ کااعتبارہے اوراگرواو کے ساتھ عطف کیاہے توپہلی صورت میں ایک واقع ہوگی اوردوسری صورت میں دو۔اوراصل یہ ہے کہ جب شوہرنے طلاق کی اضافت دواوقات موجودہ اورمستقبل کی طرف حرف عطف کے ساتھ کی تواگرموجودہ وقت کے ساتھ ابتداء کی توایک طلاق ہوگی اورمستقبل کے ساتھ کی تومتعددواقع ہوں گی۔

ردالمحتارمیں اس کے تحت ہے

”قولہ:(اتحد) لأنها إذا طلقت اليوم تكون طالقا في غد فلا حاجة إلى التعدد، لكن في البحر عن الخانية: أنت طالق اليوم وبعد غد طلقت ثنتين في قول أبي حنيفة وأبي يوسف، ولعل وجهه أن اليوم وغدا بمنزلة وقت واحد لدخول الليل فيه، بخلاف وبعد غد فهما كوقتين، لأن تركه يوما من البين قرينة على إرادته تطليقا آخر في بعد الغد كما يأتي قريبا ما يؤيده“

ترجمہ:مصنف کاقول ایک طلاق ہوگی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اسے آج طلاق ہوئی ہے توآئندہ کل بھی وہ طلاق والی ہوگی لہذاتعددکی ضرورت نہیں ہے لیکن بحرمیں خانیہ کے حوالے سے اس صورت “تجھے آج طلاق ہے اورآئندہ کل کے بعد”کے متعلق ہے کہ شیخین کے قول کے مطابق اسے دوطلاقیں ہوجائیں گی ۔اورشایداس کی وجہ یہ ہے کہ آج اورآئندہ کل ایک وقت کے قائمقام ہیں اس میں رات کے داخل ہونے کی وجہ سے ۔برخلاف“اورآئندہ کل کے بعد”والی صورت کے کہ اس صورت میں یہ دووقت ہیں کیونکہ درمیان سے ایک دن چھوڑ دیناقرینہ ہے اس پرکہ وہ آئندہ کل کے بعددوسری طلاق واقع کرنے کاارادہ رکھتاہے جیساکہ قریب ہی اس کی تائیدآتی ہے ۔ (درمختاروردالمحتار،ج3،ص265،دارالفکر،بیروت)

ردالمحتارمیں ہے

”ففي الذخيرة والهندية والتتارخانية: أنت طالق رأس كل شهر تطلق ثلاثافي رأس كل شهر واحدةولو قال: أنت طالق كل شهر طلقت واحدة لأن في الأول بينهما فصل في الوقوع ولا كذلك الثاني. اه. أي لأن رأس الشهر أوله، فبين رأس الشهر ورأس الآخر فاصل، فاقتضى إيقاع طلقة في أول كل شهرونظيره ما مر عن الخانية في أنت طالق اليوم وبعد غدبخلاف قوله في كل شهرفإن الوقت المضاف إليه الطلاق متصل فصار بمنزلة وقت واحد فكان الواقع في أوله واقعا في كله ونظيره أنت طالق اليوم وغدا هذا ما ظهر لي“

ترجمہ:ذخیرہ ،ہندیہ اورتتارخانیہ میں ہے اگرکسی نے اپنی بیوی سے کہا:تجھے ہرمہینے کی ابتداء میں طلاق ہے توعورت کوتین طلاقیں ہوجائیں گی ،ہرمہینے کی ابتداء میں ایک طلاق اوراگرکہاتجھے ہرمہینے میں طلاق ہے تو ایک طلاق واقع ہو گی اس لیے کہ پہلی صورت میں دودنوں کے درمیان طلاق کے واقع ہونے میں فاصلہ ہے اوردوسری صورت میں ایسانہیں ہے یعنی اس لیے کہ مہینے کی ابتداء اورانتہاء میں فاصلہ ہے پس اس نے ہرمہینے کی ابتداء میں طلاق کے واقع کرنے کاتقاضاکیا۔اوراس کی نظیروہ ہے جوخانیہ کے حوالے سے گزرااس معاملے میں کہ تجھے آج اورکل کے بعدطلاق ہے برخلاف ہرمہینے میں کہنے کے کیونکہ جس وقت کی طرف طلاق کی اضافت کی گئی ہے وہ متصل ہے پس وہ ایک وقت کے منزلہ میں ہوگیاتواس کے اول میں واقع ہونے والی سارے وقت میں واقع ہونے والی ہے اوراس کی نظیریہ ہے :تجھے آج طلاق ہے اورکل۔یہ وہ ہےجو میرے لیے ظاہرہوا۔(درمختاروردالمحتار،ج3،ص267،دارالفکر،بیروت)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

30محرم1445ھ

18اگست2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں