سعودیہ کا چاند اور حج

سعودیہ کا چاند اور حج

کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت کہ یہ مشہور ہے کہ سعودیہ والے چاند دیکھ کر اعلان نہیں کرتے بلکہ سائنسی طور پر روزہ،عید کا اعلان کرتے ہیں،اب اس مرتبہ حج کے حوالے سے بھی یہ شبہ ہے کہ انہوں نے چاند دیکھے بغیر سائنسی طور پر اعلان کیا ہے، اب عرفات کے دن کا کیا حساب ہوگا کیا اگلے دن دوبارہ عرفات کے میدان میں آنا ہوگا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورتِ مسئولہ میں روزہ و عید وغیرہ کا اعلان سائنسی طور پر کرنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ شرع نے مہینہ تیس دن پورے ہونے یا انتیس کو چاند نظر آنے پر موقوف کیاہے نہ کہ سائنسی طور پر چاند کی ولادت کا علم ہو جانے پر ۔باقی اگرسعودیہ نے چاند دیکھے بغیر سائنسی طور پر مہینہ شروع ہونے کا اعلان کیا ہے تو جب تک اس کے خلاف شرعی ثبوت نہ ملے، فقط افواہوں سے لوگوں کے حج خراب ہونے کا حکم نہیں دیا جائے گا کہ ہمیں یہ کنفر م معلوم نہیں کہ شرعی نکتہ نظر سے سعودیہ میں چاند نظر آیا ہے یا نہیں،لہذا جس دن سب حج کریں شرعا وہ حج ہوجائےگا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے” حجکم یوم تحجون “(تمہارا حج اس دن ہے جس تم حج کرتے ہو )ہاں اگر حج سے پہلے یا عرفہ کے دن شرعی طریقہ سے معلوم ہوجائے کہ چاند انتیس کا نہیں تھا تو پھر اگلے دن سب کو عرفہ میں حاضر ہونا ہوگا اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ جب سعودی حکومت خود اعتراف کرے کہ ہم سے چاند کے حوالے سے غلطی ہوئی ہے یا دوسرے طریقے سے شرعی ثبوت پایا جائے۔

بخای میں ہے :

” لا تصوموا حتی تروا الھلال ولا تفطروا حتی تروہ فان غم علیکم فاقدروا لہ “

ترجمہ : یعنی چاند دیکھے بغیر روزہ نہ رکھو اور افطار نہ کرو یہاں تک چاند دیکھ کر تو اگر تم پر چاند چھپا رہے تو حساب کر لو (یعنی تیس مکمل کر لو)۔ ( صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، جلد 3، صفحہ 27، دار الکتب العلمیہ بیروت)

صحیح بخاری میں ہے:

”صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ “

ترجمہ : یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور دیکھ کر افطار کر لو۔ (صحیح بخاری ،کتاب الصوم ، جلد 1 ،صفحہ 256، قدیمی کتب خانہ )

عالمگیری میں ہے :

”يجب أن يلتمس الناس الهلال في التاسع والعشرين من شعبان وقت الغروب فإن رأوه صاموه، وإن غم أكملوه ثلاثين يوما كذا في الاختيار شرح المختار“

ترجمہ : یعنی لوگوں پر انتیس شعبان کو غروب کے وقت چاند تلاش کرنا واجب ہے تو اگر چاند دیکھیں تو روزہ رکھ لیں اور اگر پوشیدہ رہے تو تیس دن پورے کریں ایسے الاختیار لتعلیل المختار میں ہے ۔ ( فتاوی عالمگیری ، الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال ، جلد 1 ،صفحہ 197، دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

”ما صرح به علماؤنا من عدم الاعتماد على قول أهل النجوم في دخول رمضان لأن ذاك مبني على أن وجوب الصوم معلق برؤية الهلال، لحديث «صوموا لرؤيته» “

ترجمہ : یعنی ہمارے علماء کرام نے صراحت فرمائی کہ دخول ماہِ رمضان کے سلسلہ میں اہلِ توقیت کا قول معتبر نہیں کیونکہ روزے کے وجوب کا دارومدار رؤیت ہلال پر معلق ہے ”صوموا لرؤیتہ” حدیث کی وجہ سے ۔ (فتاوی شامی مع در مختار ، جلد 1 ،صفحہ 431، دار الکتب العلمیہ بیروت)

بہار شریعت میں ہے :

” جوشخص علم ہیأت جانتا ہے، اُس کا اپنے علم ہیٔات کے ذریعہ سے کہہ دینا کہ آج چاند ہوا یا نہیں ہوا کوئی چیز نہیں اگرچہ وہ عادل ہو، اگرچہ کئی شخص ایسا کہتے ہوں کہ شرع میں چاند دیکھنے یا گواہی سے ثبوت کا اعتبار ہے۔ “ (بہار شریعت ،چاند دیکھنے کا بیان ،صحہ پنجم ،جلد 1 ،صفحہ 981 ،مکتبۃ المدینہ کراچی)

فتاوی یورپ میں ہے:

”شمسی تاریخوں سے قمری مہینوں کا تعین نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دونوں کا مستقر و منزل ایک نہیں ہے ،،،تو جو لوگ قمری مہینوں کی ابتدا و انتہاء کا حساب شمسی تاریخوں یا آبزرویٹری کی اطلاعات پر رکھتے ہیں وہ شریعت کو نہیں اپنی طبیعت کو امام و مقتداء بناتے ہیں ۔“ (فتاوی یورپ ، کتاب الصوم ، صفحہ 297، شبیر برادرز)

حج کے متعلق محیطِ برہانی میں ہے:

”ويقف بالناس بعرفة يوم التروية لم يجز للناس حجتهم“

ترجمہ : یعنی لوگوں نے ترویہ (آٹھ ذوالحجہ )کے دن وقوفِ عرفہ کیا تو ان کا حج درست نہ ہوا ۔ (محیط برہانی ،فصل فی الخطاء فی الوقوف، جلد 2 ،صفحہ 492، دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاوی فقیہ ملت میں ہے :

” ایک دن پہلے کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا ہے۔۔۔اس لئے کہ جس عبادت کے لئے وقت مقرر ہے اگر اس سے پہلے وہ کی جائے تو ادا نہیں ہو گی ۔“ (فتاوی فقیہ ملت ،کتاب الصوم ، جلد 1 ،صفحہ 338، شبیر برادرز)

شرح الوقایہ میں ہے :

”أن الناس وقفوا ، ثم علموا بعد الوقوف أنھم غلطوا فی الحساب ،وکان الوقوف یوم الترویۃ ،فان علم ھذا المعنی قبل الوقت بحیث یمکن التدارک ،فالامام یأمر الناس بالوقوف“

ترجمہ : یعنی لوگوں نے وقوف عرفہ کیا پھر انہیں معلوم ہو گیا کہ ان لوگوں نے حساب میں غلطی کی ہے اور وقوف یوم ترویہ کو ہوا ہے تو اگر یہ بات وقت سے معلوم ہو گئی کہ تدارک ممکن ہے تو امام لوگوں کو وقوف کا حکم دے گا ۔ ( شرح الوقایہ ، جلد 1 ، کتاب الحج ، مسائل منثورہ ، صفحہ 293)

اسی طرح کے سوال کے جواب میں فتاوی حج و عمرہ میں ہے :

”جہاں تدارک ممکن تھا وہاں تدارک کرنے کا حکم دیا اور تدارک یہ ہے کہ دوسرے روز عرفات جانا اور وقوف کرنا اور پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ کسی آدمی نے بھی کہہ دیا کہ چاند فلاں تاریخ کو ہوا ہے تو اس کا اعتبار کیونکر ہو گا جب تک رؤیت اور شہادت کے تمام تقاضوں کو مدِّ نظر نہ رکھا جائے ہر کسی کی بات معتبر نہ ہو گی کیونکہ ایک دو کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پچیس تیس لاکھ عازمینِ حج کا مسئلہ ہے لہذا جب تک رؤیت اپنے تمام شرعی تقاضے پورے نہ کرتی ہو اس کا ہرگز اعتبار نا کیا جائے اور اس وقت تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ” حجکم یوم تحجون ” (تمہارا حج اس دن ہے جس تم حج کرتے ہو )پر عمل کیا جائے ،ہاں اگر ایسی رؤیت کی ایسی شہادت آتی ہے کہ جس کا شرعاً اعتبار لازم ہے تو اس رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا اور عازمینِ حج کو دوسرے دن وقوف کرنا لازم ہو گا جیسا مندرجہ بالا عبارت میں مذکور ہے اور ان لوگوں پر اس حج کی قضا بھی لازم رہے گی، اگر اگلے آل نہیں آ سکتا تو اس سے اگلے سال آئے ،غرض یہ کہ زندگی میں اس کو آنا ہو گا نہ آ سکے تو مرنے سے قبل حج کی وصیت کرنی ہو گی یہ ایسے ہے جیسے کسی پر فرض حج ہو گیا پھر مالی طور پر کمزور ہو گیا تو فرض بہر حال باقی رہتا ہے ۔“ ( فتاوی حج و عمرہ ، جلد 2 ، صفحہ 61،60،59، جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان)

واللہ اعلم باالصواب

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

22/06/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں