جس عورت کا شوہر گم ہوجائے

جس عورت کا شوہر گم ہوجائے

کیا فرماتے علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی عورت کا شوہر غائب ہو جائے ،ذرائع ابلاغ ٔ،میڈیا ،خفیہ ایجنسیز، کورٹس ،پولیس اسٹیشن میں سالہا سال لوگ خوار ہو رہے ہوتے ہیں کوئ خبر نہیں ملتی کہ آدمی زندہ ہے یا مرگیا ؟ تو وہ عورت کس طرح دوسرا نکاح کرے گی ؟ اگر نکاح ثانی کے بعد سابقہ شوہر بھی مل جائے تو بیوی کیلئے کیا حکم ہو گا ؟ اور زوج ثانی سے جو اولاد ہوئی وہ کس کے پاس رہے گی؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مسئولہ میں اگر شوہر ایسا لاپتہ ہے کہ اسکی موت وحیات کا کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تو اس کو مفقود الخبر کہتے ہیں ہمارے ائمہ کے نزدیک اس عورت کو دوسرا نکاح اس وقت تک جائز نہیں جب تک اس گمشدہ کی عمر ستر برس (70سال) نہ ہو جائے ،(یعنی اگر وہ چالیس سال کی عمر میں گم ہوا تو عورت کو تیس سال انتظار میں گزارنا ضروری ہے )، جب اتنی مدت گزر جائیگی تو حاکمِ شرع اسکی موت کا حکم فرمائے گا اور عورت کو عدت وفات گزارنے کے بعد دوسرا نکاح حلال ہو گا ، مگر جب ضرورتِ ملتجئہ ہو کہ بغیر نکاح کہ چارہ نہیں تو اسے سیدنا امام مالک رحمہ اللہ کےفتوی پر عمل کرنے کی اجازت ہے ، ان کا مذہب یہ ہے کہ عورت حاکمِ اسلام کے حضور شوہر کے گمشدہ ہونے کا دعویٰ کرے ،پھر حاکمِ اسلام چار سال کی مدت مقرر فرمائے گا ، اس مدت میں اس کو طاقت بھر تلاش کریں اور عورت اس مدت میں صبر اور جائز طریقے سے محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرے ،نفس پر قابو نہ ہو تو روزے رکھے ،تو جب چار سال گزر جائیں اور کچھ پتہ نا چلے تو چار سال کے بعد حاکمِ اسلام کے پاس استغاثہ پیش کرے ،اب حاکمِ اسلام اسکی موت کا حکم دے گا عورت عدت وفات گزار کر آگے نکاح کر لے ، یاد رہے حاکمِ اسلام کے پاس عورت کا استغاثہ کرنا ضروری ہے بغیر استغاثہ کئے اگر وہ یہ مدت گزار کر آگے نکاح کرنا چاہے گی جائز نہیں ہے ۔ اور اگر حاکمِ اسلام نہ ہو تو شہرکے سب سے بڑے عالم کے پاس دعویٰ کرے ۔

دوسرے نکاح کے بعد اگر پہلا شوہر مل جائے تو جو اولاد دوسرے نکاح کے بعد ہوئی وہ دوسرے شوہر کے لیے ہوگی اور عورت پہلے شوہر کو لوٹا دی جائے گی ۔

سنن دار قطنی میں ہے :

”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «امرأة المفقود امرأته حتى يأتيها الخبر»“

ترجمہ : یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مفقود کی عورت اسی کی بیوی ہے یہاں تک کہ خبر آ جائے ۔ (سنن دار قطنی ، باب المہر ، حدیث: 3849، جلد 4، صفحہ 483 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

” قال علی فی امرأۃ المفقود: ھی امرأۃ ابتلیت فلتصبر حتی یأیتھا موت اوطلاق“

ترجمہ : یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مفقود کی بیوی کیلئے کہا کہ یہ ایك عورت ہے جسے ﷲ تعالٰی نے بلا میں مبتلا فرمایا ہے اس پر لازم ہے کہ صبر کرے یہاں تك کہ شوہر کی موت یاطلاق ظاہر ہو۔ ( مصنّفِ عبدالرزاق، باب التی تعلم مہلك زوجہا، جلد 7، صفحہ 90 ، 91 ، حدیث نمبر 12330 ، 12331 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

” أن ابن مسعود وافق عليا على «أنها تنتظره أبدا»“

ترجمہ : یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موافقت فرمائی ہے کہ عورت ہمیشہ انتظار کرے گی ۔ ( مصنّفِ عبدالرزاق، باب التی تعلم مہلك زوجہا، جلد 7، صفحہ 90 ، 91 ، حدیث نمبر 12333 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

موطا امام مالک میں ہے :

” أن عمر بن الخطاب، قال: أيما امرأة فقدت زوجها، فلم تدر أين هو؟ فإنها تنتظر أربع سنين ، ثم تعتد أربعة أشهر وعشرا، ثم تحل“

ترجمہ : یعنی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : جس عورت کا شوہر مفقود ہو جائے اور وہ نہیں جانتی کہ وہ کہاں ہے ؟ تو یہ چار سال انتظار کرے ، پھر چار ماہ دس دن عدت گزارے ، پھر یہ حلال ہو جائے گی ہے (یعنی نکاح کر سکتی ہے )۔ (موطا امام مالک ، باب ما جاء فی عدۃ التی تفقد زوجھا ، جلد 4 ، صفحہ 828، دار الکتب العلمیہ بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :

” أن عمر بن الخطاب، وعثمان بن عفان قالا في امرأة المفقود: «تربص أربع سنين، وتعتد أربعة أشهر وعشرا»“

ترجمہ : یعنی حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما مفقود کی بیوی کے بارے میں فرماتے ہیں: چار سال انتظار کرے گی اور چار ماہ دس دن عدت گزارے گی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث 16717، جلد 3 ، صفحہ 521 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)

نہر الفائق اور فتح القدیر میں ہے:

” عندی الاحسن سبعون لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام اعمار امتی مابین الستین الی السبعین فکانت المنتھی غالبًا“

ترجمہ : میرے نزدیك ستر اچھاہے کیونکہ حضور صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:”میری امت کی عمر ساٹھ اور ستر کے درمیان ہے۔”تو آخری حد غالبا معتبر ہوگا۔ (فتح القدیر، کتاب المفقود ،جلد 5 ،صفحہ 274،نوریہ رضویہ سکھر )

فتاوی رضویہ میں ہے:

” اتنی مدت کہ مردکی عمر سے ستر برس گزرجائیں یعنی اگر اب تك زندہ ہو توستر برس کاہو،مثلا تیس سال کی عمر میں مفقود ہوا تو عورت چالیس بر س تك انتظار کرے،اس مدت گزرنے پر قاضی اس کی موت کا حکم کرے۔بعد حکم عورت چار مہینے دس دن عدت بیٹھے،عدت گزارکر جس سے چاہے نکاح کرے۔“ ( فتاوی رضویہ ، جلد 11 ، صفحہ 349،رضا فاؤنڈیشن لاہور)

فتاوی فیض رسول، فتاوی بحر العلوم میں ہے :

” (یہ الفاظ فتاوی بحر العلوم کے ہیں) مفقود الخبر کی عورت کے لئے شوہر کی عمر ستر سال ہونے تک انتظار کا حکم ہے ،لیکن آج کل زمانے کی حالت اور عورت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے علمائے اہل سنت نے امام مالک رحمہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ دیا ہے وہ یہ ہے :

عورت یا تو کسی مقررہ قاضی اسلام کے پاس جائے قاضی نہ ہو تو اپنے علاقے کے معتبر عالم اہل سنت کے پاس جائے اور اپنے شوہر کے مفقود ہونے اور اپنی مجبوری کو بیان کرے ،عالم مذکور مزید چار سال کی مدت مقرر کرے ۔ اس دوران عورت اور اس کے اقارب شوہر کا پتہ چلاتے رہیں ،وہ مل جائے تو مسئلہ ہی حل جائے نہ ملے تو قاضی اس عورت کا نکاح فسخ کر دے ۔ اور عورت عدت گزار کر دوسرے مرد سے شادی کر لے ۔“ ( فتاوی بحر العلوم ، کتاب الطلاق ، مفقود الخبر کے أحکام ، جلد 3 ، صفحہ 408، شبیر برادرز،فتاوی فیض رسول ،کتاب المفقود ،جلد 2 ، صفحہ 253 ، اکبر بک سیلرز لاہور )

فتاوی بریلی میں اسی قسم کے سوال کے جواب میں ہے:

”وہ لڑکی اس لڑکے کی بیوی ہے اور بیوی رہے گی جب اس لڑکے موت یا طلاق کی خبر نہ آ جائے کہ حدیث إمرأة المفقود إمرأته حتى يأتيها البيان ، اور ہمارے مذہب حنفی میں دوسرا نکاح اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسکی عمر ستر سال نہ گزر جائے ،مثلا چالیس سال کی عمر میں گما تو عورت پر لازم ہے کہ تیس سال انتظار میں گزارے ،اگر اس مدت میں اس کی موت یا طلاق کی خبر آ جائے تو بعد عدت دوسرے سے نکاح جائز ہے اور اگر ضرورت ملتجئہ ہو کہ بے نکاح کوئی چارہ نہیں تو سیدنا امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے ، ان کا مذہب یہ ہے کہ عورت حاکم اسلام کے حضور استغاثہ پیش کرے ،پھر حاکم اسلام چار سال کی مدت مقرر فرمائے گا ، اس مدت میں اس کو طاقت بھر تلاش کریں ،جب کچھ پتہ نا چلے زندہ ہے مر گیا تو بعد چار سال کے عورت دوبارہ حاکم شرع کے یہاں استغاثہ کرے ،اب حاکم اسلام اسکی موت کا حکم دے گا، اب بعد عدت موت دوسری جگہ نکاح کر سکے گی ، اعلم علمائے بلد سنی صحیح العقیدہ حاکم شرع کے قائم مقام ہے ۔“ (فتاوی بریلی ، صفحہ 149، 150 ، زاویہ پبلشرز )

فتاوی بریلی میں دوسری جگہ ہے :

” عورت اس مدت میں صبر اور جائز طور سے محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرے ،نفس پر قابو نہ ہو تو روزے رکھے ۔“ ( فتاوی بریلی ، صفحہ 384 ، زاویہ پلشرز)

حدیقہ ندیہ میں ہے :

”إذا خلا الزمان من سلطان ذى كفاية فالأمور موكلة الى العلماء و يلزم الأمة الرجوع إليهم “

ترجمہ : جب زمانہ کفایت کرنے والے سلطان سے خالی ہو جائے تو یہ امور علماء کے سپرد ہیں اور امت کو انکی طرف رجوع کرنا لازم ہے ۔ (حدیقہ ندیہ ، جلد 1 ، صفحہ 240 ، مطبوعہ مصر )

دوسرے شوہر سے اولاد کے حوالے سے در مختار ، جوھرہ نیرہ ، خانیہ اور کافی میں ہے:

” ( و اللفظ لدر المختار ) (غاب عن امرأته فتزوجت بآخر وولدت أولادا) ثم جاء الزوج الأول (فالأولاد للثاني على المذهب) ۔۔۔وعليه الفتوى“

ترجمہ : شوہر اپنی بیوی سے غائب ہو گیا تو اس نے دوسری شادی کر لی اور اولاد جنی پھر پہلا شوہر آ گیا تو اولاد دوسرے کیلئے ہے صحیح مذہب کے مطابق اور اسی پر فتویٰ ہے ۔ ( در مختار مع حاشیہ شامی ، فصل فی ثبوت النسب ، جلد 3 ،صفحہ 552 ،دار الکتب العلمیہ بیروت)

اسی کے تحت عورت کو لوٹانے کے بارے میں شامی میں ہے :

” وإنما وضع المسألة في الولد إذ المرأة ترد إلى الأول إجماعا“

ترجمہ : یعنی صرف اولاد کے بارے میں مسئلہ بیان کیا ہے کیونکہ عورت تو بالاجماع پہلے شوہر کو لوٹا دی جائے گی۔ (فتاوی شامی مع در ، فصل فی ثبوت النسب ، جلد 3 ،صفحہ 552 ،دار الکتب العلمیہ بیروت)

واللہ اعلم و رسولہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وسلم

کتبہ

ارشاد حسین عفی عنہ

23/05/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں