بیوی کو ماں بہن کہنا

بیوی کو ماں بہن کہنا

کیافرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زید کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا تو اس نے بیوی کو کہا کہ آج سے تم میری ماں ہو ، میری بہن ہو،اس سے اس کی طلاق کی نیت تھی ،تو کیا اس صورت میں اس کی بیوی کو طلاق ہوجائے گی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب

اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

مذکورہ صورت میں زید کا اپنی بیوی سے کہنا کہ تم میری ماں ہو،میری بہن ہو، اس سے طلاق واقع نہیں ہو گی اگرچہ طلاق کی نیت کرے۔ مگر اس طرح بیوی کو کہنا ناپسندیدہ اور ناجائز و گناہ ہے۔ لہذا زید اس سے توبہ کرے۔

اللہ تبارک وتعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے:

” مَا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ ؕاِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰٓئِیْ وَلَدْنَهُمْ ؕوَ اِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَ زُوْرًا“

ترجمہ کنزالایمان: جورئیں (یعنی بیویاں)ان کی مائیں نہیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن سے وہ پیدا ہیں اور وہ بےشک بُری اور نِری جھوٹ بات کہتے ہیں۔(پارہ28، المجادلہ ،آیت :2)

سنن ابوداؤد شریف میں ہے:

”ان رجلا قال لامرتہ ،یا اخیۃ،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:اختک ھی،فکرہ ذلک و نھی عنہ“

یعنی ایک شخص نےاپنی بیوی کو اے میری بہن ! کہہ کر پکارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کیا یہ تیر ی بہن ہے؟ اسے ناپسند فرمایا اور اس سے منع کیا۔(سنن ابوداؤد ،کتاب الطلاق،جلد 1،صفحہ319 ،حدیث:2210، مطبوعہ لاہور )

فتح القدیر میں ہے:

”فی انت امی لایکون مظاھرًا وینبغی ان یکون مکروھا لانہ لابد فی کونہ ظھارًا من التصریح بارادۃ التشبیہ شرعًا “

ترجمہ:اور کہنے والے کا قول تو میری ماں ہے یہ ظہار کرنے والا نہیں اور یہ کہنا مکروہ ہے۔ کیونکہ ظہار کے لئے شرعا صراحت کے ساتھ تشبیہ ضروری ہے۔(فتح القدیر،کتاب الطلاق،الظہار،4/ 253-352، دار الفکر بیروت)

فتاوی ھندیہ میں ہے:

”لو قال لها: أنت أمي لا يكون مظاهرا وينبغي أن يكون مكروها ومثله أن يقول: يا ابنتي ويا أختي ونحوه ولو قال لها: أنت مثل أمي أو كأمي ينوي فإن نوى الطلاق وقع بائنا وإن نوى الكرامة أو الظهار فكما نوى هكذا في فتح القدير“

ترجمہ: اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا تو میری ماں ہے تو یہ ظہار نہیں ہوگا لیکن ایسا کہنا مکروہ ہے اور اسی کی مثل یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے میری بیٹی یا بہن یا اس طرح کے کلمات کہے (تو یہ بھی ناپسندیدہ ہے) اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے یا تو میری ماں کی طرح ہے تو اگر وہ طلاق کی نیت کرتا ہے تو طلاق بائن واقع ہوگی اور اگر اس نے اس کے اعزاز کے لیے کہا یا ظہارکی نیت سے کہا تو اس کے مطابق ہو گا (یعنی اعزاز کے لئے کہا تو کچھ نہیں ظہار کی نیت سے کہا تو ظہار ہو گا )جیسا کہ فتح القدیر میں ہے۔(الفتاوى الهندية،کتاب الطلاق ،الباب التاسع الظہار، 1/ 507، دار الفکر بیروت)

ردالمحتار میں ہے:

”انت امي بلا تشبيه فانه باطل وان نوى“

ترجمہ: کسی شخص نے تشبیہ دئیے بغیر اپنی بیوی کو کہا تو میری ماں ہے تو اس کا یہ قول باطل ہے خواہ اس نے طلاق کی نیت سے کہا ہو۔(رد المحتار على الدر المختار، کتاب الطلاق،باب الظہار،ج3، ص466، دار الفکر بیروت)

سیدی امام اہلسنت اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”زوجہ کو ماں بہن کہنا خواہ یوں کہ اسے ماں بہن کہہ کر پکارے ، یا یوں کہے تو میری ماں میری بہن ہے سخت گناہ و ناجائز ہے ، مگر اس سے نہ نکاح میں کوئی خلل آئے نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد13، صفحہ 280، مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور )

بہار شریعت میں ہے:

”عورت کو ماں یا بیٹی یا بہن کہا تو ظہار نہیں، مگر ایسا کہنا مکروہ ہے۔“ (بہار شریعت،حصہ8،ظہار کا بیان،مسئلہ:11، مکتبۃ المدینہ کراچی)

فتاوی فیض الرسول میں ہے:

”لیکن زید نے اگر مثل مانند وغیرہ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا کہ آج سے تم میری ماں ہو اور میں تمہارا بیٹا ہوں۔ تو یہ کلام لغو ہے اس کی بیوی پر کسی قسم کی کوئی طلاق نہیں واقع ہوئی اور نہ کوئی کفارہ واجب ہوا البتہ زید سخت گنہگار ہوا توبہ کرے۔“(فتاوی فیض الرسول،ج2، ص242،مسئلہ:از فیروز احمد خان، مجموعہ فتاوی اہلسنت)

واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ و بارک و سلم

کتبہ:ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

13صفر1445ھ

31اگست2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں