آیت کریمہ جو بطور ثناء لکھی ہوں اس کو بے وضو چھونا

آیت کریمہ جو بطور ثناء لکھی ہوں اس کو بے وضو چھونا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آیت کریمہ بطور دعا و ثنا لکھی ہو تو بے وضو اور جنبی کا اس کو چھونا کیسا؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

آیت کریمہ بطور دعا و ثنا یا بطور قرآن لکھی ہو بہر صورت جنبی(جس پر غسل فرض ہو) اور محدث (بے وضو) کا اسے چھونا جائز نہیں۔کیونکہ قرآن کا ادب کرنا فرض ہے،اور بے وضو شخص کا اسے چھونا بے ادبی اور تعظیم کے خلاف ہے۔ لکھی ہوئی آیت میں یہ نیت کرلینا کہ بطور دعا وثنا لکھی ہے اس نیت کا اعتبار نہیں کیونکہ نیت کا اعتبار پڑھنے میں ہوتا ہے نہ کہ لکھےہوئے میں کہ جب آیت لکھی ہو تو وہ قرآن کے لیے متعین ہوگی ، وہاں پر نیت کا بالکل اعتبار نہیں ہوگا ۔

جنبی شخص کو دعا و ثنا کی نیت سے آیت پڑھنے کی اجازت بطور ضرورت دی گئی ہے ، اور آیت بطور دعا یا ثنا لکھی ہو تو اس کو چھونے کی کوئی حاجت نہیں اس لیے چھونا شرعاً جائز نہیں ۔

قرآن کریم کو چھونے کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

” لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ“

ترجمہ کنزالایمان: اسے نہ چھوئیں مگر باوضو۔ )القرآن الکریم، السورۃ الواقعة، الآية79(

قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں جیساکہ مؤطا امام مالک میں ہے :

”أخبرنا مالك، أخبرنا عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، قال: إن في الكتاب الذي كتبه رسول الله ﷺ لعمرو بن حزم: ”لا يمس القرآن إلا طاهر“

ترجمہ: مالک رحمہ اللہ نے خبر دی کہ حضرت عبد اللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ جو خط رسول اللہﷺ نے عمر بن حزم رضی اللہ عنہ کی طرف لکھ کر بھیجا اس میں یہ بھی تھا کہ ”قرآن کو صرف پاک شخص ہی چھوئے“۔

امام احمد بن محمد قدروی حنفی رحمۃ اللہ علیہ(سال وفات:428ھ) فرماتے ہیں:

”ولا يجوز لحائض ولا جنب قراءة القرآن ولا يجوز لمحدث مس المصحف إلا أن يأخذه بغلافه“

ترجمہ: حائضہ اور جنبی شخص کو قرآن کی تلاوت کرنا جائز نہیں، اور ناپاک شخص کے لیے قرآن چھونا بھی جائز نہیں مگر یہ کہ غلاف کے ساتھ قرآن کو پکڑے۔ (مختصر القدوری،باب الحیض، صفحہ19، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

علامہ علاء الدین ابو بکر کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”ولا مس المصحف من غير غلاف عندنا، (ولنا) قوله تعالى ﴿لا يمسه إلا المطهرون﴾ [الواقعة ٧٩] وقول النبي – ﷺ – «لا يمس القرآن إلا طاهر»، ولأن تعظيم القرآن واجب، وليس من التعظيم مس المصحف بيد حلها حدث“

ترجمہ:بغیر غلاف کے ہمارے(احناف) نزدیک قرآن چھونا جائز نہیں،ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : اسے نہ چھوئیں مگر باوضو۔ اور رسول اللہﷺ کا فرمان : ”قرآن کو صرف پاک شخص ہی چھوئے“کیونکہ قرآن کی تعظیم واجب ہے ، جس ہاتھ میں حدث ہو اس کو قرآن چھونا تعظیم نہیں۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، جلد1، صفحہ33، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

علت کی ایک نظیر : کتات ِ قرآن جنبی کے لیے جائز نہیں جبکہ کہ آیت کریمہ کو چھونا پایا جائے ہاں اگر بغیر چھوئے آیت لکھی جائے تو پھر جائز ہے،لہذا قرآن پاک بے وضو چھونا بہر صورت ناجائز ہے جیساکہ الجوہرۃ النیرہ وغیرہ کتبِ فقہیہ میں ہے :

”وهل يجوز للجنب كتابة القرآن، قال في منية المصلي لا يجوز وفي الخجندي يكره للجنب والحائض كتابة القرآن إذا كان مباشر اللوح والبياض وإن وضعهما على الأرض وكتبه من غير أن يضع يده على المكتوب لا بأس به“

ترجمہ: کیا جنبی کے لیے قرآن لکھنا جائز ہے ؟ منیۃ المصلی میں فرمایا : جائز نہیں، خجندی میں ہے: جنبی اور حائضہ کے لیے قرآن لکھنا مکروہ ہے جبکہ تختی اور کاغذ دونوں کو چھونا پایا جائے ۔ اور اگر ان دونوں کو زمین پر رکھ دیا اور بغیرمکتوب پر ہاتھ رکھے لکھا تو کوئی حرج نہیں ۔ (الجوہرۃ النیرۃ ، کتاب الطھارۃ، جلد1، صفحہ31، مطبوعہ مطبعہ خیریہ)

قرآن کو چھونے میں نیت کا اعتبار نہیں جیساکہ علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”أن ما كتب من الآيات بنية الدعاء والثناء لا يخرج عن كونه قرآنا، بخلاف قراءته بهذه النية فالنية تعمل في تغيير المنطوق لا المكتوب اه من شرح سيدي عبد الغني“ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد1، صفحہ174، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

شامی کی مذکورہ عبارت لکھنے کے بعد امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات:1340)فرماتے ہیں :

”ومبناہ کما تری علی فھم ان نیۃ الاستشفاء مغیرۃ کنیۃ الدعاء ولم تعمل فی المکتوب فکذلك نیۃ الدعاء اونقول الاستشفاء من باب الدعاء فنیتہ نیتہ“

ترجمہ: جیساکہ پیشِ نظر ہے اس کی بنیاد یہ سمجھنے پر ہے کہ نیتِ دعا کی طرح شفا طلبی کی نیت سے بھی تبدیلی ہوتی ہے اوریہ نیت مکتوب میں اثر انداز نہیں ہوتی تو یہی حکم نیتِ دعا کا بھی ہے یا یوں کہیں کہ شفا طلبی بھی دعا ہی کے باب سے ہے۔ تو شفا طلبی کی نیت بھی نیتِ دُعا ہی ہے۔ (فتاوی رضویہ، کتاب الطھارۃ، جلف2،صفحہ1118، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

لکھی ہوئی آیت کریمہ کو چھونے میں نیت کا اعتبار نہیں اس بات بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ (سال وفات:1340)فرماتے ہیں:

”اما ما أفاد من ان النیۃ لا تعمل فی المکتوب. فأقول : نعم ما کتب قرآناً ولو فاتحۃ لا یصح للجنب أن یقول فی نفسہ : لیس ھذا قرآناً بل دعاء أو یقول: لا ارید بہ قرآنا بل دعاءً و ثناءً. ثم یمسّہ؛ اذ لا مدخل لارادتہ فی ظھورہ فی ھذہ الکسوۃ اللتی قد تمّ امرھا، اما ان ینشئ کتابۃ مثلھا وینوی الدعاء والثناء فأقول: قضیۃ ما قدّمت من التحقیق المنع؛ لأنّ الاذن ورد للحاجۃ، ولا حاجۃ فی الدعاء والثناء الی الکتابۃ، وما ورد علی خلاف القیاس لا یتعدّاہ، وبہ یظھر أنہ لا یوذن فی کتابۃ الرقی بالآیات، وان تمحضت للدعاء والثناء ونواھما، فلیراجع ولیحرّر، واللہ تعالیٰ اعلم“

ترجمہ: اور یہ جو افادہ کیاکہ نیت مکتوب میں اثر انداز نہیں ہوتی تو میں کہتا ہوں ہاں جسے بطور قرآن لکھاگیا اگرچہ وہ سورہ فاتحہ ہی ہواس سے متعلق یہ نہیں ہوسکتاکہ جنب اپنے دل میں کہے یہ قرآن نہیں بلکہ دعا ہے یا کہے میں اس سے قرآن کا قصد نہیں بلکہ دعا وثنا کا قصد کرتا ہوں، پھر اسے مس کرے ، اس لئے کہ اس کے ارادہ کا اس حصہ قرآن کے اس لباس میں ظاہر ہونے میں کوئی دخل نہ ہوا اس کاکام توپہلے ہی انجام پذیر ہوچکا ہے۔

رہی یہ صورت کہ ازسرِ نو وہ اسی طرح لکھے اور دعاوثنا کی نیت رکھے تومیں کہتا ہوں سابقًا میں نے جو تحقیق رقم کی اس کا تقاضا یہی ہے کہ ممانعت ہو اس لئے کہ اجازت حاجت کے باعث ہوئی ہے اور دعا وثنا میں کتابت کی کوئی حاجت نہیں۔ اور جو امر خلافِ قیاس وارد ہوتاہے وہ اپنی جگہ سے متجاوز نہیں ہوتا۔ اسی سے ظاہر ہے کہ جنب کوآیات کے تعویذات لکھنے کی اجازت نہ ہوگی اگرچہ وہ خالص دُعا وثنا پر ہی مشتمل ہوں اور دُعا وثناہی کی نیت بھی ہو۔ اس بارے میں مزیدمراجعت کی جائے اور اس کا حکم واضح کرلیا جائے۔اور خدائے پاك وبرتر ہی کو خوب علم ہے۔(فتاوی رضویہ، کتاب الطھارۃ، جلف2،صفحہ1120، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو حامد عمران رضا عطاری

22 جمادی الاولی 1444 ھ/19دسمبر2022 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں