دعا مانگنے میں ہاتھ کھلے رکھیں یا ملا کر

دعا مانگنے میں ہاتھ کھلے رکھیں یا ملا کر

دعا مانگتے ہوئے ہاتھوں کے درمیان فاصلہ رکھنا چاہیے یا ہاتھ جوڑ کر رکھے جائیں رہنمائی فرما دیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ھدایۃ الحق والصواب

دعامانگنے میں ہاتھ جوڑ کر رکھنا اور کھلے رکھنا دونوں طریقے احادیث سے ثابت ہیں ،اس لیے دونوں ہی طریقے درست ہیں،لیکن علمائے کرام نے ہاتھ کھول کر دعا مانگنے کو زیادہ پسند کیا ہے۔

احیاء العلوم میں ہے

”قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: كَانَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَا ضَمَّ كَفَّيْهِ وَجَعَلَ بُطُونَهُمَا مِمَّا يَلِي وَجْهَهُ“

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب دعا مانگتے تو ہتھیلیاں ملاتے اور ان کا پیٹ اپنے چہرے کی طرف رکھتے تھے۔(احیاء علوم الدین، جلد 1، کتاب الاذکار والدعوات، آداب الدعاء، صفحہ 307، مكتبة كرياطه فوترا سماراغ)

الزھد و الرقائق میں ہے:

”حدثني علقمة بن مرثد، وإسماعيل بن أمية، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا فرغ من صلاته رفع يديه وضمهما…….الخ“

ترجمہ: مجھے علقمہ بن مرثد اور اسمعیل بن امیہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور انہیں ملا کر رکھتے ۔ (الزھد و الرقائق، جلد1،صفحہ405، دار الکتب، العلمیۃ)

مسند ابی یعلیٰ میں ہے:

” وسئل أنس: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه في الدعاء؟ قال: نعم، بينما هو ذات يوم جمعة يخطب الناس فقيل: يا رسول الله، قحط المطر، وأجدبت الأرض، وهلك المال، فادع الله، قال: فرفع يديه حتى رأيت بياض إبطيه، فاستسقى وما أرى في السماء سحابة، فما قضينا الصلاة حتى إن الشاب القريب الدار يهمه الرجوع إلى أهله، فدامت جمعة، فلما كانت الجمعة الثانية، قالوا: يا رسول الله، تهدمت البيوت، واحتبس الركبان، وهلك المال قال: فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال بيده ففرج بينهما، ثم قال: «اللهم حوالينا ولا علينا»، وفرق بين يديه، قال: فكشفت عن المدينة “

ترجمہ:سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں ہاتھ اٹھاتے تھے تو حضرت انس نے فرمایا: ہاں ایک مرتبہ جمعہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے تو عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کا قحط ہے اور زمین بنجر ہو گئی اور مال ہلاک ہو گیا پس آپ اللہ سے دعا کریں، حضرت انس نے فرمایا کہ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل کہ سفیدی دیکھی پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش طلب فرمائی اور آسمان میں کوئی بادل نہیں دیکھائی دے رہا تھا پس جب ہم نے نماز مکمل کی تو گھر کے قریب کا نوجوان اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے میں جلدی رکھتا تھا، چنانچہ یہ بارش ایک جمعہ تک جاری رہی، اور جب دوسرا جمعہ آیا تو لوگ کہنے لگے: یا رسول اللہ، گھر تباہ ہو گئے، مسافر پھنس گئے، اور مال ہلاک ہو گیا ہے حضرت انس نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر ان کے درمیان میں فاصلہ رکھ کر دعا کی اور فرمایا اے اللہ اسے ہم سے پھیر دے اور ہم پر مسلط نہ فرما اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کے درمیان فاصلہ رکھا، حضرت انس نے فرمایا کہ پھر مدینہ ظاہر ہو گیا(یعنی بادل چھٹ گئے)۔(مسند ابی یعلیٰ: (رقم الحدیث: 3863، ط: دار المامون)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”والأفضل في الدعاء أن يبسط كفيه ويكون بينهما فرجة، وإن قلت، ولا يضع إحدى يديه على الأخرى“

ترجمہ: اور دعا میں افضل ہے کہ بندہ اپنی ہتھیلیاں پھیلائے اور ان کے درمیان فاصلہ رکھے،اگرچہ تھوڑا ہو اور وہ ایک ہاتھ کو دوسرے پر نہ رکھے۔(كتاب الكراهية، الباب الرابع في الصلاة والتسبيح وقراءة القرآن و الذكر و الدعاء ورفع الصوت عند قراءة القرآن، ج: 5، ص: 318، ط: رشيدية)

موسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

” يرى الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة أن من آداب الدعاء خارج الصلاة رفع اليدين بحذاء صدره.ثم اختلف هؤلاء الفقهاء في هيئة اليدين عند الدعاء:فذهب الحنفية إلى أنه من الأفضل أن يبسط كفيه ويكون بينهما فرجة“

ترجمہ: حنفیہ اور مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک نماز سے باہر دعا کرتے ہوئے آداب دعا میں سے ہے کہ ہاتھوں کو اپنے سینے کے برابر اٹھائے پھر ان فقہائے کرام رحمہم اللہ السلام نے دعا کے وقت ہاتھوں کی کیفیت میں اختلاف کیا پس حنفیہ اس طرف گئے کہ افضل یہ ہے کہ بندہ اپنی ہتھیلیوں کو پھیلائے اور ان کے درمیان فاصلہ رکھے۔(الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (266/45، ط: دار السلاسل)

الدرالمختار میں ہے:

”یبسط یدیه حذاء صدرہ نحوالسماء لانھا قبلة الدعاء ویکون بینھما فرجة “

ترجمہ: وہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینہ کے برابرآسمان کی طرف پھیلائے کیونکہ آسمان دُعا کا قبلہ ہے اور ان کے درمیان فاصلہ ہو ۔(درمختار ،فصل واذارادلشروع فی الصلوٰۃ الخ ،جلد1،صفحہ 77،مطبوعہ مجتبائی ،دہلی)

اس کے تحت ردالمحتار میں ہے:

”ای وان قلت قنیة “

یعنی اگرچہ تھوڑا فاصلہ ہی ہو ۔(ردالمحتار علی الدر المختار، فصل فی بیان تالیف الصلوٰۃ،جلد1،صفحہ 375،مطبوعہ مصطفی البابی ،مصر)

فتاویٰ رضویہ میں امامِ اہلِ سنّت سے سوال ہواکہ ہاتھ ملا کر دُعا چاہئے یا علیحدہ علیحدہ کرے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشادفرمایا:

”دونوں ہاتھوں میں کچھ فاصلہ ہو۔“ (فتاویٰ رضویہ،جلد6، صفحہ328،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

فضائلِ دُعا میں رَئِیسُ الْمُتَکَلِّمِیْن مولانانقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ دُعاکے آداب ذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”ہاتھ کھلے رکھے،کپڑے وغیرہ سے پوشیدہ نہ ہوں۔“(فضائلِ دعا،صفحہ76 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

کتبہ:

انتظار حسین مدنی کشمیری عفی عنہ

مؤرخہ: 12/09/2023

اپنا تبصرہ بھیجیں