ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹ خریدنا

ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹ خریدنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آجکل ہاؤسنگ اسکیم میں زمین موجود ہوتی ہے لیکن ابھی پلاٹنگ نہیں ہوتی پلاٹ علیحدہ علیحدہ کرکے متعین نہیں ہوتے زمین کے مالک فقط فائلز نکالتے ہیں وہ بروکرز کو فائلز دیتے ہیں کہ ان کو بکواو خرید وفروخت کا ایگریمنٹ بھی تم کرو اب اگر بروکرز خریدار کے ساتھ خود ہی ایگریمنٹ ( ایجاب و قبول) کر کے ان میں سے کچھ فائلز بکوا دیں شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس کا یہ عمل کیسا ہے اور اس صورت میں جو اسے مالک کی طرف سے کمیشن ملا وہ اس کے لیے حلال ہے یا حرام ہے ؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

بیان کی گئی صورت میں اگر زمین موجود ہو لیکن ہر پلاٹ کی حد بندی نہ ہو کہ پلاٹ خریدا جارہا ہے وہ کس جگہ پر ہے ،اسے جاکر دیکھنا بھی ممکن نہ ہو بس یہ کہہ دیا جائے کہ اس پوری کالونی میں سے آپ کو ایک پلاٹ اتنے مرلے کا دیا جائے گا اگرچہ نقشہ بھی دکھا یا جائےتو یہ جائز نہیں کیونکہ شرعا یہ مجہول(غیر معین چیز) کی بیع ہے جو فاسد ہوتی ہے۔ جب یہ بیع درست نہیں تو کمیشن لے کر اس کی فائلز فروخت کرنا بھی درست نہیں ہے ۔

تنویرالابصارمیں ہے :

’’ فسدبیع عشر ۃ اذرع من مائۃ ذراع من دار‘‘

ترجمہ: گھرکے سو گز میں سے دس گزکی بیع فاسدہے۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار ، کتاب البیوع ، جلد7، صفحہ70، مطبوعہ کوئٹہ)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

”واماثوب من ثوبین فلجھالۃ المبیع“

یعنی دو کپڑوں میں سے ایک غیر معین کپڑے کو بیچنا ، جہالت کی وجہ سے بیع فاسد ہے۔ (الاختیار لتعلیل المختار، جلد2، صفحہ53، بیروت)

تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:

”(وشرط لصحتہ معرفۃ قدر ) مبیع وثمن“

یعنی خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لئے ثمن اور مبیع کی مقدار معلوم ہونا شرط ہے۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار متن ردالمحتار، جلد7، صفحہ46، کوئٹہ)

المبسوط میں ہے

”وجھالۃ المبیع فیما یتفاوت یمنع صحۃ العقد“

یعنی جب مبیع میں بہت زیادہ جہالت ہو، تو یہ عقد کے صحیح ہونے کے مانع ہے۔(المبسوط، جلد13، صفحہ55، بیروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

”أن يكون المبيع معلوما“

ترجمہ:(بیع صحیح ہونے کی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع معلوم ہو۔ (عالمگیری،جلد 3،صفحہ3، مطبوعہ پشاور)

فتاوی رضویہ میں ہے:

”اگر گواہان عادل سے ثابت ہوجائے کہ عقد زبانی میں فی گز 6 کی تصریح تھی اور اسی حساب سے 24 گز(9لعہ) روپے کو بیع ہوئی ،تو اگر 24 گز مبیع کی تعیین سمت بھی ہوگئی تھی ،جیسا کہ اب عرضی دعوٰی کے بعض بیانو ں سے مستفاد ہے ،تویہی 24 گز جانب غربی سے بیع ہوئی۔ باقی پر مشتری کا قبضہ باطل ہے اور اگر تعیین نہ تھی جیسا کہ بیان بیع میں کہ عرضی دعوٰی میں ہے، اس وقت تک نہیں ،تو یہ بیع بوجہ جہالت فاسد ہوئی”لان الذراع انما یحل فی المعین فھو معین لکنہ مجھول الموضع لامشاع کما فی ردالمحتار“ تنویر الابصار میں ہے:’’ فسد بیع عشرۃ اذرع من مائۃ ذراع من دار۔۔۔ ‘‘اسی طرح اگر بعد مجلس اس عقد فاسد کو ترک کر کے ایک طرف سے 24 گز معین بائع نے مشتری کو دئیے اور اس نے لئے تو بھی صحیح ہو گئی۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد17، صفحہ125،رضافاونڈیشن،لاھور)

بہار شریعت میں ہے:

”مبیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ ہوسکے۔ اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو، تو بیع صحیح نہیں مثلا: اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی دام پر بیچا یا اس قیمت پر جو فلاں شخص بتائے۔“ (بہار شریعت، ج2، ص617، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وقار الفتاوی میں ہے:

”معصیت کرنے پر اجرت بھی معصیت ہوتی ہے۔“(وقار الفتاوی، جلد 2 ،صفحہ 518، مطبوعہ، بزم وقار الدین)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ممبر فقہ کورس

07جمادی الاول 1445ھ22نومبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں