کمپنیوں کی ایپ انسٹال کرنے پر رقم یا موبائل فری منٹس لینے کی شرعی حیثیت

کمپنیوں کی ایپ انسٹال کرنے پر رقم یا موبائل فری منٹس لینے کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل کئی کمپنیاں اپنی Applicationبناتی ہیں اور یہ آفر کرتی ہیں کہ جو اسے انسٹال کرے گا تو کمپنی اسے کو فون بیلنس یا پیسے دے گی۔ اگر اس ایپ کالنک شیئر کیا جائے اور دوسرا اس کو انسٹال کرے تو شیئر کرنے والے کو بھی فرمی منٹس یا پیسے ملتے ہیں۔ کیا یہ پیسے یا فری منٹس لینا شرعا جائز ہے؟ یادر ہے کہ یہ ایپس بغیر کسی عوض کے مفت میں انسٹال کی جاتی ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

بیان کردہ صورت کے مطابق شرعا ایسی ایپ انسٹال کرنے اور اس کا لنک شیئر کرنے پر پیسے یافری منٹس لینا جائز ہے بشرطیکہ یہ یہ ایپ غیر شرعی کاروبار وغیرہ پر مبنی نہ ہوں یا بے حیائی والی نہ ہوں کیونکہ غیر شرعی کاموں کو عام کرنا گناہ کے کاموں میں تعاون ہے جو کہ جائز نہیں۔

کمپنی کا یہ پیسے یامنٹس دینا درحقیقت انعام ہے ،اسی وجہ سے ان ملنے والے بیلنس کو”فری منٹس“کہا جاتا ہے۔دراصل کمپنی اس ایپ کو پلے سٹور پر فری رکھتی ہے کہ جو چاہے انسٹال کرے۔ اس میں صراحتا یا دلالتا انسٹال کرنے والے کو اجیر بنانا مقصود نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی فقط ایپ انسٹال کرنے اور اس کو شئیر کرنے کو اجارہ سمجھتا ہے۔کمپنی کسی وقت بھی یہ بیلنس اور رقم دینا بند کرسکتی ہے اور انسٹال کرنے والا اس بیلنس اور رقم کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ نہیں کرے گا ۔انعام کی تعریف فقہائے کرام نے یہ فرمائی ہے جو بغیر کسی عوض کے دیا جائے جیسے ہمارے یہاں مختلف اشیاء کی خریداری پر انعام رکھا جاتا ہے ،اس میں اگرچہ کمپنی کو مقصود یہی ہوتا ہے کہ ہماری چیز زیادہ بکے لیکن یہ بغیر عوض ہوتا ہے اس لیے اس کوانعام کہا جاتا ہے۔یونہی مذکورہ صورت میں کمپنیوں کا اصل مقصد ہوسکتا ہے اپنی ایپ کی تشہیر ہو لیکن چونکہ بغیر کسی عوض کے یہ منٹس یا رقم ملتی ہے، اس لیے یہ انعام ہے۔

علامہ سید شریف جرجانی رحمہ اللہ کتاب التعریفات میں انعام کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں

”ھو ما قصد بہ الاحسان و النفع لا لغرض ولا لعوض“

جس کے ذریعے احسان اور نفع پہنچانے کا قصد کیا جائے بغیر کسی غرض و عوض کے۔ (التعریفات للجرجانی، صفحہ168، مطبوعہ لاہور)

درج ذیل جزئیات کو اس مسئلہ کی نظیر بنایا جاسکتا ہے:

کسی کی گمی ہوئی چیز کا پتہ بتانے پر انعام کے جواز پر کلام کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

” بطور انعام دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔“ (بہارشریعت،حصہ10،صفحہ483،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

آج کل جو مارکیٹنگ کی نوکریاں چل رہی ہیں کہ پیسے دے کر کمپنی کا ممبر بنا جاتا ہے اور بعد میں اورلوگوں کو گھیرا جائے تو اس میں سے کمیشن ملتا ہےاس کےناجائز ہونے اور بغیر عوض انعام ملنے کے جواز پرفتاویٰ رضویہ میں ایک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:

سوال:”ماقولکم رحمکم اﷲ تعالٰی فی ھذہ المسئلۃ (اس مسئلہ کے بارے میں تمہارا کیاا رشاد ہے اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔) زید نے نوآنے قیمت کے ایک ٹکٹ ۹/ آنے سے لے کر سرکار میں داخل کیا بعد ازاں سرکار نے اسی زید سے سوا روپیہ لے کر اس کو چارٹکٹ اور دے دئے، بعد اس کے زید نے وہی چار ٹکٹ وہی سواروپیہ بیچ کر پھر سرکار میں داخل کیا، بعد روپیہ داخل کرنے کے سرکار نے اسی روپیہ کے دو فی قیمت کا ایک کپڑا زید کو دے دیا اب یہ معاملہ مطابق شرح شریعت کے جائز ہے یانہیں ؟ اور اس کپڑا سے نماز پڑھنا جائز ہے یانہیں ؟”بینوا توجروا بالدلائل وحوالۃ الکتب“ (دلائل و حوالہ کتب کے ساتھ بیان کرو اجردئے جاؤ گے۔ )

جوابا امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”یہ صورت شرعا باطل وناجائز ہے کہ وہ ٹکٹ جو اس کے ہاتھ بیچا جاتاہے اور یہ دوسروں کے ہاتھ بیچتا ہے اصلا مال نہیں تو رکن بیع کہ مبادلۃ المال بالمال ہے اس میں متحقق نہیں اس کی حالت مٹی سے بھی بدتر ہے مٹی پھر بھی کام آتی ہے، اوریہ کسی مصرف کا نہیں سوائے اس کے کہ احمق پہلے اپنا گلا پھانسے پھر اس کے چھڑانے کو اپنے سے چاراحمق اور تلاش کرے اور ان میں ہر ایک کو چار چار ڈھونڈناپڑیں اوریہ سلسلہ بڑھتا رہے یا بعض احمقوں کے خسارہ پر ختم ہوجائے، ہاں وہ کپڑا کہ اسے ملا وہ معاوضہ نہیں ہوتا بلکہ بطور انعام دیا جاتاہے تو وہ فی نفسہٖ اس کے لئے جائز اور اس سے نماز درست ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد17،صفحہ167،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

”اگر مقصود سخن منفی اجارہ حقیقۃ ووعدہ مجردہ انعام محض بروجہ تبر ع باشد مثلا زید گفت حالاہمچناں مفت ورائگاں کارمے کنم ہیچ اجارہ درمیان نیست اگر بمدت معلومہ صحت دست نداد چیزے نہ دہند کہ کارباجرت خود نبودہ است، ورنہ بطور تبرع صدروپیہ انعام بخشند، بکر گفت ہمچناں کنم ایں رواوبے غائلہ است، زیرا کہ وعدے بیش نیست والوعدہ لاحجر فیہ “

ترجمہ:اگر زید و بکر کا کلام حقیقی اجارہ کی نفی پر مبنی ہے اور انعام کا صرف وعدہ بطور تبرع ہے مثلا زید نے کہا فی الحال مفت علاج کرتاہوں اور کوئی اجارہ نہیں ہے اور مد ت معینہ میں صحت یابی نہ ہو تو کچھ نہ دینا کیونکہ یہ کام اجرت پر نہیں ہے ورنہ صحت یابی کی صورت میں تبرع کے طورپر سوروپیہ انعام بخشش کردینا، بکر نے جواب میں تسلیم کرلیا کہ ایسا کروں گا تویہ بالکل جائز ہے کیونکہ یہ ایک وعدہ ہے جس میں کوئی حرج نہیں ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد19،صفحہ470،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

14 شوال المکرم 1444 ھ/05مئی 2023 ء

  

اپنا تبصرہ بھیجیں