حضرت ادریس علیہ السلام کا مزار کیا نجف میں ہے؟

حضرت ادریس علیہ السلام کا مزار کیا نجف میں ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس بارے میں کہ کسی کا یہ کہنا کیسا ہے کہ ادریس علیہ السلام کا مزار نجف میں جہاں حضرت علی المرتضیٰ کا مزار ہے؟ا ور قرآن پاک کی اس آیت (”وَ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا“ ترجمہ:اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔)کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہم نے ادریس کو وہ جگہ دی جو علی کو دی۔آپ مستند دلائل کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ کیا اس بندے کا کہنا درست ہے؟کیا حضرت ادریس علیہ السلام کا مزار نجف میں ہے یا ہوگا؟کیایہ قرآن کی معنوی تحریف ہے ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب

مذکورہ شخص کا یہ کہنا واضح طور پر قرآن کی معنوی تحریف ہے اور اس پر شخص پراعلانیہ توبہ ورجوع لازم ہے۔حضرت ادریس علیہ السلام کا مزار نجف پاک میں نہ ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔

حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے معتبر تفاسیر سے یہ ثابت ہے کہ کلمات قرآن کریم ” مَكَانًا عَلِیًّا “کا مطلب یا تو معنوی ہے یعنی قدر و منزلت اور بلند رتبہ مراد ہے یا اس سے مکان حسی مراد ہے پھر مکان حسی سے یا تو(کئی مفسرین کے نزدیک)چوتھا آسمان مراد ہے یا جنت مراد ہے اور جمہور مفسرین کے قول کے مطابق آپ جنت میں زندہ ہیں اور اس سے نہیں نکالے جائیں گے۔پھر آپ کے وصال کے حوالے سے بھی بعض کتب میں یہ لکھا ہے کہ ایک آن کے لیے آپ نے موت کا ذائقہ چکھا اور پھر جنت میں رہ گئے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا اور پھر وہاں ان کی روح قبض کرلی گئی اور چوتھے آسمان پر ہی ان کےجسم مبارک کو دفن کیا گیا ۔لہذا پہلی صورت میں جب وہ زندہ ہیں تو مزار بننے کی بات بالکل باطل اور دوسری صورت میں جب ان کی روح مبارک آسمانوں پر قبض کرلی اور وہاں ہی تدفین ہوئی تو بھی زمین پر مزار بننا ثابت نہ ہوا۔ نیز کسی بھی کتاب میں یہ نہیں کہ آپ کا مزار مبارک نجف میں ہے یا آئندہ وہ دنیا میں آئیں گے اور نجف میں ان کا مزار بنے گا۔جو دعوی کررہا ہے ا س پر دلیل دینا لازم ہے۔ نجف میں مزار مبارک کہنے والے شخص کو اتنی فہم نہیں کہ حضرت ادریس علیہ السلام نبی ہیں اور غیر نبی نبی سے کیسے فضیلت والا ہو سکتا ہے ؟ بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا مزار نجف میں ہے تو حضرت ادریس علیہ السلام کے صدیوں بعد مولا علی رضی اللہ عنہ کا وصال مبارک ہوا ،اب یہ شخص بتائے کے نجفِ اشرف میں پہلے کون مدفون ہوا اور بعد میں کسے وہاں مدفون ہونے کا شرف ملا ؟

تفسیر بیضاوی میں ہے

”(ورفعناہ مکانا علیا) یعنی شرف النبوۃ والزلفی عنداللہ، وقیل الجنہ، وقیل السماء السادسہ او الرابعۃ“

ترجمہ:مکانا علیا سے مراد ہے ان کو شرف نبوت اور مقام خاص عطا کیا گیا، ایک قول یہ ہے وہ جنت میں ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ چھٹے یا چوتھے آسمان میں ہیں۔(تفسیر بیضاوی الجزء الرابع صفحہ نمبر 14 سورہ مریم مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت)

تفسیر صاوی میں مذکور آیت کے تحت ہے:

”اختلف المفسرون فی المکان العلی فقیل المراد بہ المکان المعنوی وھو الرفعۃ وعلو المنزلۃ و قیل المراد بہ المکان الحسی وعلیہ فقیل ھو السماء الرابعۃ وقیل الجنۃ“

ترجمہ:بلند مکان کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے ایک قول یہ کہ اس سے معنوی مکان یعنی بلند درجہ اور رفعت مراد ہے دوسرا یہ کہ مکان حسی مراد ہے پھر اس میں اقوال ہیں ایک یہ کہ حسی مکان سے مراد چوتھا آسمان ہے دوسرا قول مکان حسی سے جنت مراد ہے۔(تفسیرصاوی،پ16،سورہ مریم:57،ص1241، مطبوعہ لاہور)

تفسیر کبیر میں قرآن پاک کی اس آیت ”وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا“(ترجمہ: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا ) کے تحت لکھا ہے:

”ان المراد بہ الرفعۃ فی المکان الی موضع عال وھذا اولی لان الرفعۃ المقرونة بالمکان تکون رفعۃ فی المکان لا فی الدرجۃ ثم اختلفو فقالع بعضہم ان اللہ رفعہ الی السماء و الی الجنۃ وھو حی لم یمت“

اس سے مراد مکان کی بلندی ہے یہی معنی بہتر ہےکیونکہ مکان کے ساتھ منسلک بلندی مکان میں ہی بلندی ہوتی نہ کہ درجہ میں پھر اس میں اختلاف ہے بعض نے کہا اللہ پاک نے ان کو آسمان کی طرف اٹھایااور جنت کی طرف اٹھایا اس حال میں کہ وہ زندہ تھے۔(تفسیر الفخر الرازی، الجزء الحادی والعشرون، سورہ مریم صفحہ نمبر234 مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

تفسیر خازن میں ہے:

”{وَ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا} قيل هي الرفعة بعلو المرتبة في الدنيا، وقيل إنه رفع إلى السماء. وهو الأصح“

حضرت ادریس علیہ السلام کو بلندمکان پر اٹھالینے کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ ا س سے آپ علیہ السلام کوآسمان پر اٹھالیا گیا ہے اور زیادہ صحیح یہی قول ہے۔ (خازن، مریم، تحت الآیۃ: 57،جلد3،صفحہ190، دار الكتب العلميہ، بيروت)

الرحمن في تفسير القرآن سورۃ مریم آیت 57،ج4،ص260إدَارَةُ الشُؤُونِ الإِسلَامِيّةِ)

تفسیر طبری میں ہے

”عن مجاهد، قوله: {ورفعناه مكانا عليا} [مريم: 57] قال: إدريس رفع فلم يمت، كما رفع عيسى “

ترجمہ: حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل کے اس فرمان اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا،کے متعلق فرمایا: حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں میں اٹھائے گئے اور انہیں موت نہ آئی جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اٹھائے گئے۔(تفسیر الطبری،جلد15،صفحہ563،دارہجر)

سیدی امام اہلسنت احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

” جمہور علماء کے نزدیک چار نبی بے عروضِ موت اب تک زندہ ہیں، دو آسمان پر، سیدنا ادریس و سیدنا عیسی اور دو ز مین میں، سیدنا الیاس و سیدنا خضر علیہم الصلوۃ والسلام اور یہ دونوں حضرات ہر سال حج کرتے ہیں اور ختم حج پر زمزم شریف کے پاس باہم ملتے ہیں، اور آبِ زمزم شریف پیتے ہیں کہ آئندہ سال تک ان کے لیے کافی ہوتا ہے پھر کھانے پینے کی حاجت نہیں ہوتی۔“(فتاوی رضویہ،جلد29،صفحہ637،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

خزائن العرفان میں ہے:

”حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں کے اوپر جنت میں ہیں اور زندہ ہیں۔“ ( خزائن العرفان، ص ۵۵۷، مریم:۵۶۔٥٧، مکتبۃ المدینہ)

فتح الرحمن في تفسير القرآن میں ہے:

”﴿ورفعناه مكانا عليا﴾ الجنة؛ لأنه روي أنه أذيق الموت ساعة، ثم أحيي، ثم أدخل الجنة ولم يخرج منها“

ترجمہ :آپ علیہ السلام کو بلند مقام پر اٹھائے جانے سے مرادجنت ہے دلیل یہ ہے کے روایت کیا گیا کہ آپ علیہ السلام کو تھوڑی دیر موت کا ذائقہ چکھایا گیا پھر زندہ کیا گیا،پھر جنت داخل کیا گیا پھر آپ جنت سے باہر تشریف نہ لائے۔(فتح

تفسیر خازن میں ہے:

”وقال وهب: كان يرفع لإدريس كل يوم من العبادة مثل ما يرفع لجميع أهل الأرض في زمانه، فعجب منه الملائكة واشتاق إليه ملك الموت فاستأذن ربه في زيارته فأذن له فأتاه في صورة بني آدم وكان إدريس يصوم الدهر، فلما كان وقت إفطاره دعاه إلى الطعام فأبى أن يأكل معه ففعل ذلك ثلاث ليال، فأنكره إدريس وقال له في الليلة الثالثة: إني أريد أن أعلم من أنت قال: أنا ملك الموت، استأذنت ربي أن أصحبك فقال لي إليك حاجة قال وما هي قال تقبض روحي. فأوحى الله إليه أن اقبض روحه وردها الله إليه بعد ساعة فقال له ملك الموت ما الفائدة في سؤالك قبض الروح؟ قال لأذوق كرب الموت وغمه فأكون أشد استعدادا له. ثم قال له إدريس لي إليك حاجة أخرى. قال وما هي قال ترفعني إلى السماء لأنظر إليها وإلى الجنة والنار فأذن الله له فرفعه فلما قرب من النار قال لي إليك حاجة قال وما هي قال أريد أن أسأل مالكا أن يرفع أبوابها فأراها.ففعل قال فكما أريتني النار فأرني الجنة. فذهب به إلى الجنة فاستفتح ففتحت أبوابها فأدخله الجنة ثم قال له ملك الموت اخرج لتعود إلى مقرك فتعلق بشجرة، وقال ما أخرج منها فبعث الله إليه ملكا حكما بينهما قال له الملك ما لك لا تخرج؟ قال لأن الله تعالى قال كُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ وقد ذقته ثم قال وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وارِدُها فأنا وردتها وقال وَما هُمْ مِنْها بِمُخْرَجِينَ فلست أخرج فأوحى الله تعالى إلى ملك الموت بإذني دخل الجنة وبأمري لا يخرج فهو حي هناك فذلك قوله تعالى وَرَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا واختلفوا في أنه حي في السماء أم ميت. فقال قوم هو ميت واستدل بالأول. وقال قوم هو حي واستدل بهذا. وقالوا أربعة من الأنبياء أحياء اثنان في الأرض وهما الخضر وإلياس. واثنان في السماء وهما إدريس وعيسى“

مذکورہ عبارت کا خلاصہ:

مروی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے ملک الموت سے فرمایا کہ موت کا مزہ چکھنا چاہتا ہوں، کیسا ہوتا ہے؟ تم میری روح قبض کر کے دکھاؤ۔ ملک الموت نے اس حکم کی تعمیل کی اور روح قبض کر کے اُسی وقت آپ کی طرف لوٹا دی اور آپ زندہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اب مجھے جہنم دکھاؤ تاکہ خوف ِ الٰہی زیادہ ہو۔ چنانچہ یہ بھی کیا گیا جہنم کو دیکھ کر آپ نے داروغہ جہنم سے فرمایا کہ دروازہ کھولو، میں اس دروازے سے گزرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آپ اس پر سے گزرے۔ پھر آپ نے ملک الموت سے فرمایا کہ مجھے جنت دکھاؤ، وہ آپ کو جنت میں لے گئے۔ آپ دروازوں کو کھلوا کر جنت میں داخل ہوئے۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ملک الموت نے کہا کہ اب آپ اپنے مقام پر تشریف لے چلئے۔ آپ نے فرمایا کہ اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ تو موت کا مزہ میں چکھ ہی چکا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلاَّ وَارِدُھَا کہ ہر شخص کو جہنم پر گزرنا ہے تو میں گزر چکا۔ اب میں جنت میں پہنچ گیا اور جنت میں پہنچنے والوں کے لئے خداوند ِ قدوس نے یہ فرمایا ہے کہ وَمَا ھُمْ مِّنْھَا بِمُخْرَجِیْنَ کہ جنت میں داخل ہونے والے جنت سے نکالے نہیں جائیں گے۔ اب مجھے جنت سے چلنے کے لئے کیوں کہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو وحی بھیجی کہ حضرت ادریس علیہ السلام نے جو کچھ کیا میرے اذن سے کیا اور وہ میرے ہی اذن سے جنت میں داخل ہوئے۔ لہٰذا تم انہیں چھوڑ دو۔ وہ جنت ہی میں رہیں گے۔ چنانچہ حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں کے اوپر جنت میں ہیں اور زندہ ہیں۔علما فرماتے ہیں چار انبیاء کرام زندہ ہیں دو آسمان میں ادریس و عیسی علیھما السلام اور دو زمین میں خضر و الیاس علیھما السلام۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 57،جلد3،صفحہ190، دار الكتب العلميہ، بيروت)

تفسیر جلالین میں مذکور آیت کے تحت ہے:

” ھو حی في السماء الرابعۃ او السادسۃ او السابعۃ او فی الجنۃ ادخلھا بعد ان اذیق الموت واحیی ولم یخرج منھا“

ترجمہ: آپ علیہ السلام چوتھے یا چھٹے یا ساتویں آسمان میں زندہ ہیں یا موت چھکنے کے بعد زندہ کئے گئے اور جنت میں داخل کیا گیااب جنت سے نہیں نکالے جائیں گے۔(جلالین مع صاوی،پ16،سورہ مریم:57،ص1241-1242، مطبوعہ لاہور)

امام رازی متوفی 606 ھ اور علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی 754 ھ علیہما الرحمہ نے لکھا ہے :

” ثم اختلفوا فقال بعضهم إن الله رفعه إلى السماء وإلى الجنة وهو حي لم يمت، وقال آخرون: بل رفع إلى السماء وقبض روحه سأل ابن عباس رضي الله عنهما كعبا عن قوله: ورفعناه مكانا عليا قال: جاءه خليل له من الملائكة ۔۔۔۔فحمله ذلك الملك بين جناحيه فصعد به إلى السماء فلما كان في السماء الرابعة فإذا ملك الموت يقول بعثت وقيل لي اقبض روح إدريس في السماء الرابعة، وأنا أقول كيف ذلك وهو في الأرض فالتفت إدريس فرآه ملك الموت فقبض روحه هناك “

ترجمہ:پھر اس بارے میں اختلاف ہے بعض نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمانوں کی طرف اٹھایا اور جنت میں داخل کیا اور وہ جنت میں حیات ہیں اور دوسرے علماء کے گروہ نے فرمایا کہ ان کو آسمانوں پر اٹھایا اور ان کی روح قبض کی گئی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ورفعناہ مکانا علیا کی تفسیر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: حضرت ادریس علیہ السلام کے پاس ان کا ایک دوست فرشتہ آیا تو ان کو سوارکرکے آسمانوں کی طرف لے گیا جب چوتھے آسمان پر پہنچے تو ملک الموت علیہ السلام نے فرمایا مجھے بھیجا گیا اور کہا گیا کہ حضرت ادریس کی روح قبض کرلوں چوتھے آسمان پرتو میں نے کہا یہ کیسے ہوگا کیونکہ ادریس علیہ السلام تو زمین پر ہیں۔حضرت ادریس نے مڑ کر ملک الموت علیہ السلام کو دیکھا تو حضرت ملک الموت نے حضرت ادریس علیہ السلام کی روح مبارک وہیں قبض کی۔ (التفسير الكبير،جلد21،صفحہ550،دار إحياء التراث العربي – بيروت)

تفسیر قرطبی میں ہے

” فقبض روحه فرفعها إلى الجنة، ودفنت الملائكة جثته في السماء الرابعة، فذلك قوله تعالى: ورفعناه مكانا عليا “

ترجمہ:حضرت ادریس علیہ السلام کی روح قبض کی اور ان کی روح کو جنت کی طرف اٹھا دیا اور جسم مبارک کو چوتھے آسمان پر دفن کردیا گیا اور یہی اللہ عزوجل کے فرمان کا مطلب ہے: اور ہم نے اسے بلند مکان پر اٹھالیا۔(تفسیر قرطبی،جلد11،صفحہ119، دار الكتب المصرية،القاهرة)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا عطاری

29 محرم الحرام 1445ھ بمطابق17 اگست 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں