کرامات اولیاء کا ثبوت اور منکر کا حکم
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کرامت کسے کہتے ہیں نیز کراماتِ اولیاء کہا سے ثابت ہیں اور کراماتِ اولیاء کے منکر کے لیے کیا حکم شرع ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب: بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
ولی سے جو خلاف عادت بات ظاہر ہواس کو کرامت کہتے ہیں،
جیسے آصف بن برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے تختِ بلقیس کو یمن سے شام میں لے آنا، ، اصحاب کہف کا بغیر کھائے پیے صدہا سال تک زندہ رہنا، حضرت مریم کا بغیر خاوند حاملہ ہونا اور غیبی رزق کھانا، مُردہ زندہ کرنا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا، مشرق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کر جانا، غرض تمام خوارقِ عادات اولیاء سے ممکن ہیں (سوائے اس معجزہ کے جس کی بابت دوسروں کے لئے ممانعت ثابت ہو چکی ہے جیسے قرآن مجید کے مثل کوئی سورت لے آنا یا دنیا میں حالت بیداری میں دیدار الٰہی سے مشرف ہونا وغیرہ۔)
کراماتِ اولیاء بر حق ہیں، جس کا ثبوت قرآن وسنت صحابہ و ائمہ دین اور اسلاف سے ہے، اور یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلسنت میں سے ہے ۔ لہذا جو کراماتِ اولیاء کا انکار کرے ، وہ بدمذہب وگمراہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قَالَ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ، قَالَ عِفْرِیْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ، وَ اِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیٌّ اَمِیْنٌ ، قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ}
ترجمہ کنزالایمان: سلیمان ( علیہ السلام) نے فرمایا : اے درباریو !تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں؟ ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت حضور میں حاضر کر دوں گا، قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بے شک اس پر قوت والا، امانتدار ہوں۔ اس نے عرض کی، جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کر دوں گا، ایک پل مارنے سے پہلے۔‘‘
(پارہ19، سورۃ النمل، آیت 38،39،40)
نور العرفان میں ان آیات کے تحت مفسر شہیر مفتی احمدیار خان نعیمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس سے معلوم ہوا کہ ولایت برحق ہے اور اولیاء اللہ کی کرامات بھی برحق ہیں۔‘‘
(نورالعرفان، ص816، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِى الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ترجمہ: تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر گنتی کے کئی برس تھپکا، پھر ہم نے انہیں جگایا کہ دیکھیں دونوں گروہوں میں کون ان کے ٹھہرنے کی مدت زیادہ ٹھیک بتاتا ہے۔
(پارہ15، سورة الكهف، آيت 11,12)
مزید اللہ پاک فرماتا ہے
وَلَبِثُوا فِي كَهْفِهِمُ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا
ترجمہ: اور وہ اپنے غار میں تین سو برس ٹھہرے نو اوپر۔
(پارہ15، سورة الكهف، آيت25)
مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ، وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا ، قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ، قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ} ترجمہ: جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے، اس کے پاس نیا رزق پاتے، کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے۔‘‘
(پارہ 3، سورۂ آل عمران، آیت37)
اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں ہے:
’’یہ آیت کراماتِ اولیاء کے ثبوت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں پر خوارق ( کرامات ) ظاہرفرماتا ہے۔‘‘
(تفسیر خزائن العرفان، ص98، مطبوعہ ضیاء القرآن)
بخاری شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كَانَ رَجُلٌ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ يُقَالُ لَهُ جُرَيْةٍ يُصَلَّى، فَجَاءَتْهُ أُمُّهُ فَدَعَتْهُ فَأَبَى أَنْ يُجِيبَهَا، فَقَالَ أُجِيبُهَا أَوْ أُصَلَّى، ثُمَّ أَتَتْهُ فَقَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا تُمِتُهُ حَتَّى تُرِيَهُ وُجُودَ المُومِسَاتِ، وَكَانَ جُرَيَّةٌ فِي صَوْمَعَتِهِ فَقَالَتِ امرأة لافتين جريحًا، فَتَعَرَضَتْ لَهُ فَكَلَّمَتُهُ فَأَبَى فَأَتَتْ رَاعِيَّا، فَأَمْكَنَتُهُ مِنْ نَفْسِهَا، فَوَلَدَتْ غُلَامًا فَقَالَتْ: هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ، فَأَتَوْهُ وَكَسَرُوا صَوْمَعَتَهُ فَأَنْزَلُوهُ وَسُبُوهُ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى ثُمَّ أَتَى الغُلَامَ، فَقَالَ مَنْ أَبُوكَ يَا غُلَامُ؟ قَالَ الرَّاعِي، قَالُوا نَبْنِي صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ لَكَ إِلَّا مِنْ طِينٍ
ترجمہ: بنی اسرائیل کے ایک (عبادت گزار) شخص تھے جن کو جریج کہا جاتا تھا، ایک مرتبہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کی والدہ ان کے پاس آئیں اور ان کو آواز دی، انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور (دل میں) کہا میں جواب دوں یا نماز پڑھتا رہوں (اسی شش و پنج میں کوئی جواب نہ دیا، والدہ چلی گئیں، کچھ عرصہ بعد) ان کی والدہ پھر آئیں اور(بلانے پر جواب نہ آنے کی صورت میں بددعا دیتے ہوئے) کہا اے اللہ تو اسے موت نہ دینا جب تک تو اسے کسی فاحشہ کا منہ نہ دکھا دے۔ جریج اپنی عبادت گاہ میں تھے ، ایک فاحشہ عورت نے کہا کہ میں جریج کو ضرور فتنے میں ڈالوں گی، اس نے اپنے آپ کو جریج پر پیش کیا اور برائی کے بارے میں گفتگو کی، جریج نے انکار کیا، تو وہ فاحشہ ایک چرواہے کے پاس آئی اور اپنے اوپر اسے قدرت دے دی، (اس نے برا کام کیا، جس کے نتیجے میں) اس فاحشہ نے ایک بچہ جنا اور لوگوں سے کہا کہ یہ جریج کا بچہ ہے، لوگ جریج کے پاس آئے اور اس کی عبادت گاہ گرادی، جریج کو نیچے اتار کر سب و شتم کیا، جریج نے وضو کیا اور نماز پڑھی پھر بچے کے پاس آئے اور بچے سے کہا تیرا باپ کون ہے؟، بچے نے جواب دیا چرواہا، ( نومولود بچے کی گواہی سے لوگ سارا معاملہ سمجھ گے ، شرمندہ ہوئے ) اور جریج سے کہنے لگے ہم آپ کی عبادت گاہ سونے کی بنا دیتے ہیں، جریج نے کہا نہیں تم مٹی ہی کی بنادو۔
(صحیح بخاری، باب اذا هدم حائطاً فليين مثله، ج3، ص137 ، دار طوق النجاة)
مؤطا امام مالک میں ہے
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے وصال سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی سے فرمایا:
وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِث، وَإِنَّمَا هُوَ أَخَوَاكِ واختاک، فَاقْسِماهُ عَلَى كِتابِ الله تبارك وتعالى
ترجمه: آج یہ(میرا) مال وارث کا ہو چکا ہے، اور (میرے مال کے) وارث (تمہارے علاوہ) تمہارے دو بھائی اور تمہاری دو بہنیں ہیں، اس مال کو ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کرنا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا
إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاء فَمَنِ الأخرى؟ ترجمہ: میری تو ایک ہی بہن اسماء ہے، دوسری کون ہے؟ فرمایا ذو بَطْنِ بنتِ خَارِجَة أَرَاهَا جَارِيَةٌ ترجمہ (تمہاری سوتیلی والدہ) بنت خارجہ حاملہ ہے، میرے خیال میں وہ لڑکی ہے۔
(موطا امام مالك، باب ما لا يجوز من النحل والعطيه ، ج2، ص483، مؤسسة الرساله، بيروت)
موطا امام محمد کی روایت میں ہے (فَوَلَدَتْ جَارِيةٌ) ترجمہ پس انہوں نے ایک بچی جنی، (جس کا نام ام کلثوم تھا)
(مؤطا امام محمد باب النحلى ، ج1، ص286، المكتبة العلمية، بيروت)
دلائل النبوۃ میں ہے:
ان عُمَرَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ قَالَ فَقَامَ عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَأَقْبَلَ يَصِيحُ وَهُوَ عَلَى الْمَنْبَرَ يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ يَا سَارِيَةٌ الْجَبَلَ فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقِينَا عَدُونَا فَهَزَمُونَا فَإِذَا صَائِمٌ يَصِيحُ :يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ فَاسْتَنَدُنَا بِأَظْهُرِنَا إِلَى الْجَبَلِ فَهَزَمَهُمُ الله
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لشکر (ایک مہینہ کی مسافت پر نہاوند ) بھیجا، اس پر حضرت ساریہ کو امیر بنایا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دورانِ خطبہ منبر پر حضرت ساریہ کو پکارا اے ساریہ پہاڑ کو لو، اے ساریہ پہاڑ کولو پھر جب اس لشکر سے قاصد آیا، اس سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا: اے امیر المؤمنین دشمن کی ہم سے لڑائی ہوئی، وہ ہمیں شکست دینے لگا کہ اچانک ہم نے آواز سنی۔اے ساریہ پہاڑ کولو، ہم نے اپنی پشتوں کو پہاڑ کی طرف کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دے دی۔
(دلائل النبوة لابی نعیم ماظهر على يد عمر، ج1، ص579، دار النفائس بيروت)
امام طبری الریاض النضرۃ میں نقل کرتے ہیں:
روی أن رجلا دخل على عثمان وقد نظر امرأة أجنبية, فلما نظر إليه قال هاء أيدخل على أحدكم وفي عينيه أثر الزنا فقال له الرجل أوحى بعد رسول الله على الله عليه وسلم قال لا ولكن قول حق وفراسة صدق
ترجمہ: مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، اس شخص نے راستے میں ایک اجنبیہ کی طرف نظر کی تھی، جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کی طرف دیکھا تو فرمایا خبردار، کوئی شخص تمہارے پاس اس حال میں آتا ہے کہ اس کی آنکھوں میں زنا کا اثر ہوتا ہے، تو اس شخص نے آپ سے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بعد وحی اتری ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نہیں مگر یہ قول حق ہے اور مومن کی فراست سچ ہے۔
(الرياض النضرة في مناقب العشرة الباب الثالث الفصل التاسع، ج3، ص40,41، دار الكتب العلميه ، بيروت)
مرقاۃ المفاتح میں ہے:
حُكِي أَنَّ عَلِيًّا کر الله تعالى وَ كَانَ يَبْتَدِهُ الْقُرْآنَ مِنَ الْتِدَاءِ قَصْدِ رُكُوبِهِ مَعَ تَخَلْقِ الْمَمَانِي وَتَقَلهِ الْمَعَانِي، وَيَخْتِمُهُ حِينَ وَضْعِ قَدَمِهِ فِي رِكَابِهِ الثَّانِي
ترجمہ: حکایت کیا گیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سواری پر سوار ہونے کا قصد کرتے تو قرآن پاک پڑھنا شروع فرماتے اور دوسری رکاب پر پاؤں رکھنے سے پہلے قرآن ختم فرمالیا کرتے حال یہ ہوتا کہ قرآن کے حروف بھی سمجھ آرہے ہوتے اور معانی بھی۔ (مرقاة المفاتيح، ج9، ص3654، دار الفکر، بیروت)
شرح عقائد نسفیہ میں ہے:
’’کرامات الاولیاء حق فتظھر الکرامۃ علیٰ طریق نقض العادۃ للولی من قطع مسافۃ البعیدۃ فی المدۃ القلیلۃ‘‘ترجمہ: اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں، پس ولی کی کرامت خلافِ عادت سے ظاہر ہوتی ہے کہ وہ مسافتِ بعیدہ کو مدتِ قلیلہ میں طے کر لے۔‘‘
اس کی شرح میں علامہ تفتازانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’کأتیان صاحب سلیمان علیہ السلام وھو اٰصف بن برخیا علی الاشھر بعرش بلقیس قبل ارتداد الطرف مع بعد المسافۃ‘‘ ترجمہ: مثلاً صاحب ِسلیمان علیہ السلام آصف بن برخیا کا تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے مسافت بعیدہ سے لے آنا۔‘‘
(شرح العقائد النسفیہ مع متن العقائد، صفحہ 146، مطبوعہ ملتان)
شرح فقہ اکبر میں ہے:
’’الکرامات للاولیاء حق ای ثابت بالکتاب والسنۃ ولا عبرۃ بمخالفۃ المعتزلۃ واھل البدعۃ فی انکار الکرامۃ‘‘ ترجمہ:کراماتِ اولیاء حق ہیں۔ یعنی قرآن وسنت سے ثابت ہیں اور معتزلہ اور بدعتیوں کا کراماتِ اولیاء کا انکار کرنا، معتبر نہیں۔‘‘
(شرح فقہ اکبر، صفحہ130، مطبوعہ ملتان )
فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’کراماتِ اولیاء کا انکار گمراہی ہے ۔‘‘
(فتاوٰی رضویہ، جلد14،صفحہ 324، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)
بہار شریعت میں صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کرامتِ اولیا حق ہے، اس کا منکر گمراہ ہے۔ مردہ زندہ کرنا ،مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا، مشرق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا، غرض تمام خوارقِ عادات( خلافِ عادات کام ) اولیاء سے ممکن ہیں، سوا اُس معجزہ کے جس کی بابت دوسروں کے لیے ممانعت ثابت ہوچکی ہے۔ جیسے قرآن مجید کے مثل کوئی سورت لے آنا یا دنیا میں بیداری میں اللہ عزوجل کے دیدار یا کلامِ حقیقی سے مشرف ہونا، اس کا جو اپنے یا کسی ولی کے لیے دعویٰ کرے ، کافر ہے۔‘‘
(بہارشریعت،جلد1،صفحہ268، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)
واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ بابر عطاری مدنی اسلام آباد
3ربیع الثانی1445/ 19اکتوبر2023