عیدِ میلاد کے موقع پر کیے جانے والے چند اعتراضات کے جوابات
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ہر سال منکرین کی طرف سے ایک ہی طرح کے گھسے پٹے اعتراضات شروع ہوجاتے ہیں۔ان اعتراضات کے مدلل جوابات درکار ہیں۔ وہ اعتراضات درج ذیل ہیں:
(1) اسلام میں عیدیں صرف دو ہی ہیں تو پھر بارہ ربیع الاول کو عیدِ میلاد کہنا کیسا؟
(2) اس دن روزہ رکھنا کہاں سے ثابت ہے؟
(3) عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے اور بارہ ربیع الاول جب عید کا دن ہے تواس دن روزہ رکھنا کیسا؟
(4) بارہ ربیع الاول اگر عید کا دن ہے تو اس عید کو بغیر عید کی نماز پڑھے گزار دینا کیسا؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب: بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
(1) یہ بات بالکل غلط ہے کہ اسلام میں عیدیں صرف دوہی ہیں کیونکہ احادیثِ مبارکہ میں ان دو عیدوں کے علاوہ بھی کئی ایام کو عید قرار دیا گیا ہے۔جیساکہ جمعہ کے دن کو بھی عید فرمایا گیا، اور سال میں 52جمعہ ہیں اور 52باون عیدین تو صرف ایامِ جمعہ کی ہوئیں، اسی طرح یوم عرفہ، یوم نحر، ایام تشریق، بلکہ نعمت ملنے کے دن کو بھی عید کا دن فرمایا گیا، اور یہ سب قرآن و احادیث سے ثابت ہے۔
(2) حضور علیہ السلام ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے اور اس کی وجہ آپ نے خود ہی ارشاد فرمائی کہ یہ دن میری ولادت کا دن ہے۔جب ہر پیر کو روزہ رکھنا حضور علیہ السلام سے ثابت ہے تو بارہ ربیع الاول کو رکھنا بھی درست ہوا۔
(3) یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ عید کا دن ہونا مطلقا روزہ رکھنے کے لیے مانع نہیں ہے، جیساکہ یوم عاشورا اور یوم عرفہ کو احادیثِ طیبہ میں عید کا دن فرمایا گیا اور احادیثِ مبارکہ میں ان دنوں میں روزہ رکھنے کی فضیلت و ترغیب بھی موجود ہے۔ البتہ ممانعت عید الفطر اور عید الاضحیٰ سے متعلق احادیث مبارکہ و کتبِ فقہ میں وارد ہوئی ہے نہ کہ دیگر ایام کے بارے میں اور خاص بات یہ کہ عیدِ میلاد کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کسی حدیث میں موجود نہیں بلکہ ولادت والے دن (پیر) کو روزہ رکھنا حدیث پاک سے ثابت ہے۔
(4) عید کی نماز صرف دوعیدوں(عید الفطر اور عید الاضحی)میں ہے اور اس کے علاوہ ہر عید کے دن کے لیے عید کی نماز ہونا ضروری نہیں جیسا کہ عرفہ اور عاشورہ کے دن کو احادیث طیبہ میں عید کا دن کہا گیا لیکن ان میں عید کی نماز نہیں پڑھی جاتی اسی طرح عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی عید کی نماز نہیں۔
جزءِ اول کے دلائل
ابنِ ماجہ میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی
”هَذِهِ الْجُمُعَةُ يَعْرِضُهَا عَلَيْكَ رَبُّكَ عَزَّ وَجَلَّ لِتَكُونَ لَكُم عِید“
ترجمہ: یہ جمعہ کا دن ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے تاکہ آپ کے لیے عید ہو۔(ابن ماجه ، ج 1 ، ص 250 ، دار ابن قیم، الدمام)
مزید مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ اور ایام تشریق کو بھی عید قرار دیا ہے چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا
”يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ، عِيدُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ“
ترجمہ: یوم عرفہ، یوم نحر اور ایام تشریق اہل اسلام کے لئے عید ہیں ۔(مصنف ابن ابی شیبه ، ج 3 ص 394 مكتبة الرشد ، رياض)
نعمت ملنے کا دن بھی عید ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”رَبَّنَا أُنزِلُ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لأوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ“
ترجمہ کنز الایمان: اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ، ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔(پارہ7، سورة المائدہ، آیت 114)
بخاری شریف میں ہے کہ حضور قاسم نعمت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں
”محمد نعمة الله“
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں۔ (صحیح بخاری ، ج 5، ص 76، دار طوق النجاة ، بيروت)
بلکہ ایسی نعمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نعمت کا مؤمنین پر احسان یاد فرمایا ہےچنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
” لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ “
ترجمہ کنز الایمان : بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ (پ4 سوره آل عمران آیت 164)
جب دستر خوان کی نعمت نازل ہونے کا دن عید منانے کا دن ہے تو جو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ملنے کا دن ہے وہ بدرجہ اولی عید منانے کا دن ہے۔
جزءِ ثانی کے دلائل
صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس دن روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا تو جواباً ارشاد فرمایا
”ذاك يوم ولدت فيه ويوم بعثت او انزل على فيه“ ترجمہ: یہ دن میری ولادت کا دن ہے، اسی دن میں مبعوث کیا گیا اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، ج2، ص819، دار احياء التراث العربي بيروت)
ترمذی شریف میں ہے:
”عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتحری صوم الاثنین والخمیس“
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کے دن کے روزے کا خاص خیال رکھتے تھے ۔(سنن الترمذی ،رقم الحدیث745)
جزءِ ثالث کے دلائل
مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةٌ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ وَصِيَامُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِتي قبله“
ترجمہ: مجھے اللہ پاک پر گمان ہے کہ عرفہ کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ مٹادیتا ہے، اور عاشورہ کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹادیتا ہے۔ (صحیح مسلم ،ج2، ص818، داراحیاء التراث العربی بیروت)
روزہ نہ رکھنے کی ممانعت عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے ایام کے بارے میں ہے چنانچہ ترمذی شریف میں ہے
”نھی رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامين صيام يوم الأضحى ويوم الفطر“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ دنعیم نے عید الاضحی اور عید الفطر کے روزے سے منع فرمایا۔ (جامع الترمذى، ج1، ص280 مكتبه رحمانیه ،لاہور، سنن ابی داؤد، ج2، ص319 المكتبة العصريه بيروت)
در مختار میں ہے علامہ علاءالدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
”والمكروه تحریماً کالعیدین“
اس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
”وایام التشريق“
ترجمہ: عیدین اور ایام تشریق ( گیارہ بارہ، تیره ذوالحجہ ) کے روزے رکھنا مکروہ تحریمی ہے۔(رد المحتار على الدرالمختار،ج3، ص391، مكتبه حقانيه)
صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے
”عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ على الله عليه وسلَ عَنْ صَوم الاثْنَيْنِ؟ فَقَالَ فِيهِ وُلِدتُ وَفِيهِ أُنزِلَ عَلَى“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی کی ابتدا ہوئی۔ (صحیح مسلم، باب استحباب صيام ثلاثة ايام من كل شهر، ج2، ص820، داراحياءالتراث العربی بیروت)
جزء رابع کے دلائل
فتاویٰ شامی میں ہے:
”وتجب على من تجب عليه الجمعة “۔۔۔۔ ” صلاة العيد في القرى تكره تحريما “
ترجمہ: جس پر جمعہ کی نماز واجب ہے اس پر عید کی نماز واجب ہے۔ گاؤں میں عید کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔(فتاوی شامی، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج2، ص167، مطبوعہ دار الفکر بیروت)
مرآۃ المناجیح میں مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
”نمازعید واجب ہے عید الفطر عباداتِ رمضان کی توفیق ملنے کے شکریے کی ہے، رب تعالٰی فرماتا ہے: ”وَلِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ” ترجمہ تاکہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی۔اور بقر عید حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی کامیابی کے شکریہ میں۔“(مرآۃ المناجیح ج2، ص352، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
واللہ و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ بابر عطاری مدنی اسلام آباد
2ربیع الاول1445/ 20ستمبر2023