سونا ،چاندی میں بیع سلم

سونا ،چاندی میں بیع سلم

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ سونا اور چاندی میں بیع سلم جائز ہے یا نہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

بیع سلم اگر درہم و دینار میں ہوتو ناجائز ہے اور اگر سونا چاندی کے زیورات،برتنوں وغیرہ میں ہواوربیع سلم کی دیگر شرائط پائی جاتی ہوں تو جائز ہے۔وجہ یہ ہے کہ درہم و دینار ثمن ہیں اور بیع سلم میں مسلم فیہ کا مبیع ہونا ضروری ہے۔درہم و دینار کے علاوہ سونے کے زیورات اور دیگر اشیاء مبیع ہوجاتی ہیں لہٰذاسناروں سے بیع سلم کی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سونا چاندی کے زیوارت بنوانا جائز ہے۔

درمختار میں ہے

”الدراهم والدنانير لأنها أثمان فلم يجز فيها السلم “

ترجمہ:دراہم اور دنانیر ثمن ہیں جن میں سلم جائز نہیں۔ (درمختارمع رد المحتار،کتاب البیوع،باب السلم،جلد5،صفحہ211،دار الفكر،بيروت)

دررالحکام میں ہے

”احترازا عن الدنانير والدراهم فإنها من الموزونات لكنها ليست بمثمنة بل أثمان فلا يجوز فيها السلم“

ترجمہ:دنانیر اور دراہم میں سلم سے احتراز کرتے ہوئے کہ یہ موزونات میں سے ہیں لیکن مبیع نہیں بلکہ اثمان ہیں تو ان میں سلم جائز نہیں۔ (درر الحكام شرح غرر الأحكام ،کتاب البیوع،شرائط السلم،جلد2،صفحہ195،دار الفكر،بيروت)

المحیط البرہانی میں ہے

”الشرط السابع: أن يكون المسلم فيه يتعين بالتعيين حتى لا يجوز السلم في الأثمان نحو الدراهم المضروبة والدنانير المضروبة؛ لأن المسلم فيه يجب أن يكون مبيعاً“

ترجمہ:ساتویں شرط یہ ہے کہ مسلم فیہ متعین کرنے سے متعین ہوسکتی ہو ۔لہٰذا اثمان میں سلم جائز نہیں جیسے رائج دراہم و دنانیر ، اس لیے کہ مسلم فیہ کا مبیع ہوناضروری ہے۔ (المحيط البرهان،كتاب البيع،الفصل الثاني والعشرون: في السلم،جلد7،صفحہ71،دار الكتب العلمية، بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے

”كان المسلم فيه مبيعا، والمبيع مما يتعين بالتعيين، والدراهم، والدنانير لا يحتملان التعيين شرعا في عقود المعاوضات فلم يكونا متعينين فلا يصلحان مسلما فيهما“ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب البيع،فصل في شرائط الصحة في البيوع،جلد5،صفحہ186،دار الكتب العلمية،بيروت)

الاختیار میں ہے

”ولا يجوز السلم في ما لا يتعين بالتعيين كالدراهم والدنانير، لأن البيع بها يجوز نسيئة فلا حاجة إلى السلم فيهما “ (الاختيار لتعليل المختار، كتاب البيوع،باب السلم،جلد2،صفحہ36،مطبعة الحلبي،القاهرة)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

”نوٹ ہوں یا پیسے دونوں کی بیع سلم جائز ہے کہ ثمن اصطلاحی ہیں نہ خلقی، تنویر الابصار و درمختارباب السلم میں ہے”یصح فیما امکن ضبط صفتہ ومعرفۃ قدرہ کمکیل وموزون) خرج بقولہ (مثمن) الدراھم والدنانیر لانہا اثمان فلم یجز فیہا السلم (وعددی متقارب کجوزوبیض وفلس“ترجمہ:عقد سلم اس چیز میں صحیح ہے جس کی صفت کو ضبط کرنا اور اس کی مقدار کو پہچاننا ممکن ہو جیسے کیلی چیزاور ایسی وزنی چیز جو مثمن یعنی مبیع بنے، اس قید سے دراہم ودنانیر خارج ہوگئے کیونکہ وہ ثمن ہیں جن میں بیع سلم جائز نہیں ، اور ایسی چیز جو عددی متقارب ہو جیسے اخروٹ، انڈے، اور پیسے ۔” (فتاوی رضویہ ،جلد17،صفحہ583، رضافاؤنڈیشن ،لاہور)

سونے چاندی کے برتن،کنگن،سونا چاندی کی ڈھلی کو کتب فقہ میں متعین قرار دیا گیا ہے۔

البحر الرائق میں ہے

” دخل المصوغ من الذهب والفضة كالآنية تحت القيميات فتتعين بالتعيين للصفة “

ترجمہ:اس میں سونا چاندی سے بنی ہوئی چیزیں داخل ہوگئیں جیسے سونا چاندی کے برتن قیمی ہیں وصف کی تعیین سے متعین ہوجاتے ہیں۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق،کتاب البیوع،الاعواض فی البیع،جلد5،صفحہ299،دار الكتاب الإسلامي)

درمختار میں ہے

”(والمعتبر تعيين الربوي في غير الصرف) ومصوغ ذهب وفضة “ (درمختار مع ردالمحتار،کتاب البیوع،مطلب في استقراض الدراهم عددا،جلد5،صفحہ178،دارالفکر،بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

” بلکہ تحقیق یہ ہے کہ جوشے مرابحۃ بیچی جائے اس میں دو شرطیں ہیں :شرط اول: وہ شے معین ہو یعنی عقد معاوضہ اس کی ذات خاص سے متعلق ہوتاہے نہ یہ کہ ایک مطلق چیز ذمہ پر لازم آتی ہو، ثمن جیسے روپیہ اشرفی عقود معاوضہ میں متعین نہیں ہوتے، ایک چیز سو روپے کو خریدی کچھ ضرور نہیں کہ یہی سو روپے جو اس وقت سامنے تھے ادا کرے بلکہ کوئی سو دے دے، اور اگر مثلا سونے کے کنگن بیچے تو خاص یہی کنگن دینے ہوں گے، یہ نہیں کرسکتا کہ ان کو بدل کر دوسرے کنگن دے اگر چہ وزن ساخت میں ان کے مثل ہوں یہ شرط مرابحۃ وتولیۃ ووضیعہ تینوں میں ہے یعنی اول سے نفع پر بیچے یا برابر کو یا کمی پر، یہاں اس شیئ کا معین ہونا اس لئے ضرور ہے کہ یہ عقد اسی شیئ مملوک سابق پر وارد کا جاتاہے اور جب وہ معین نہیں تو نہیں کہہ سکتےکہ یہ وہی شی ہے، ولہٰذا اگرروپوں سے اشرفیاں خریدیں تو ان کو مرابحہ نہیں بیچ سکتے۔۔۔اور اگر سونے کا گہناروپوں کو خریدا تو اسے مرابحۃ بیچ سکتاہےکہ وہ بیع میں متعین ہوگیا تو عقد سی مملوک اول پر واقع ہوگا۔”(فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ225،رضافاونڈیشن،لاہور)

سونا یا چاندی کے برتن کے مبیع ہونے پر کلام کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃالرحمن فرماتے ہیں:” ثم اقول: بل حقیقۃ الامر ان الاموال کما فی البحر وغیرہ اربعۃ اقسام ، الاول ثمن بکل حال وھو النقدان فانھما اثمان ابداصحبتھما الباء اولا وقوبلا بجنسھما اولا وعدھما العرف من الاثمان اولا کا لمصوغ منھما فانہ بسبب ما اتصل بہ من الصنعۃ لم یبق ثمنا صریحا و لہذا یتعین فی العقد و مع ذٰلک بیعہ صرف یشترط فیہ مایشترط فی الصرف لانھما خلقا للثمنیۃ ولا تبدیل لخلق اﷲ“ پھرمیں کہتا ہوں اصل بات یہ ہے کہ مال چار قسم ہے جیسا کہ بحرالرائق وغیرہ میں ہے، اول وہ کہ ہر حال میں ثمن ہی ہے اور وہ سونا چاندی ہے کہ ہمیشہ ثمن ہی رہیں گے خواہ انکے عوض کوئی چیز بیچی یا انکو کسی چیز کے عوض بیچنا کہیں خواہ اپنی جنس سے بدلے جائیں یاغیر جنس سے خواہ اہل عرف انہیں ثمن کہیں یا نہیں جیسے چاندی سونے کے برتن کہ وہ اس گھڑت کے سبب جو ان میں ہوئی خالص ثمن نہ رہے ولہٰذا عقد بیع میں متعین ہوجائیں گے اور باینہمہ ان کی بیع شرعاً صرف ٹھہرے گی ( یعنی ثمن سے ثمن کا بیچنا) اور جو شرائط صرف کے وہ سب اس کے مشروط ہوں گے اس لئے کہ چاندی سونا ثمن ہونے کے لئے ہی بنائے گئے اور اﷲ کی پیداکی ہوئی چیز بدلی نہیں جاتی ۔ ”(فتاوٰ ی رضویہ،جلد17،صفحہ404۔۔،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

یہاں جو بیع صرف کہا گیا یہ سونا کے بدلے چاندی اور چاندی کے بدلے سونا خریدنے کے اعتبار سے ہےورنہ اگر ایک طرف سے سکہ یا نوٹ ہوں اور دوسری طرف سے سونا یا چاندی ہوتو دونوں طرف قبضہ ضروری نہیں بلکہ ایک طرف سے قبضہ کافی ہے۔

اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا:” کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بیع فلوس رائجہ کی جو حکم ثمن میں ہیں بمقابلہ روپیہ کے بیع صرف ہے یانہیں؟ اور اگر صراف کو روپیہ دیا اس کے پاس کل روپیہ کے پیسے نہ تھے موجوددیے باقی کا وعدہ کردیا تو یہ بیع جائز ہوگی یانہیں؟ اور جبکہ یہ بیع صرف بسبب صدق تعریف کے کہ بیع الثمن بالثمن ہے قرار دی جائے گی تو اس میں شرائط بیع صرف کے کہ متحد الجنسین میں تماثل اور تقابض اور مختلف الجنسین میں تقابض ہے درصورت جواز کے پائے جائیں گے یانہیں؟ بینواتوجروا

جوابافرماتے ہیں:” بیع الفلوس بالدارہم صرف نہیں نہ اس میں سب احکام صرف جاری”فان الصرف بیع ماخلق الثمنیۃ بماخلق لہا کما فسرہ بذٰلک فی البحر وتبعہ فی الدرالمختار واقرہ الشامی وغیرہ و معلوم ان الفلوس لیست کذا وانما عرض لہاحکم الاثمان بالاصطلاح مادامت رائجۃ والافہی عروض کما فی اصل خلقتہا وبعدم کونہ صرفا صرح العلامۃ الشامی عن البحر وصاحب البحر عن الذخیرۃ عن المشائخ فی باب الربٰو من ردالمحتار “کیونکہ صرف تو خلقی ثمن کو خلقی ثمن کے عوض بیچنے کا نام ہے جیسا کہ اس کی تفسیر بیان کی بحر نے اور درمختار میں اس کی اتباع ہے اور شامی وغیرہ نے اس کو برقرار رکھا اور یہ بات معلوم ہے کہ پیسے ثمن خلقی نہیں۔ انہیں تو جب تک وہ رائج ہیں اصطلاح میں ثمنوں کاحکم عارض ہے ورنہ تویہ سامان ہیں جیسا کہ اصل خلقت میں تھے اور اسکے بیع صرف نہ ہونے کی تصریح علامہ شامی نے ردالمحتار کے باب الربٰو میں بحر کے حوالہ سے کی اور صاحب بحر نے بحوالہ ذخیرہ عن مشائخ نقل کیا۔مگر اس قدر میں شک نہیں کہ جب تاعین رواج ان کے لئے حکم اثمان ہے تو احدالجانبین میں قبض بالید ہونا ضروری ہے۔”والالکان افتراقا عن دین بدین و قد نہی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن بیع الکائی بالکائی“ورنہ یہ دین کے بدلے دین سے افتراق ہوگا حالانکہ رسول اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ادھار کے بدلے ادھار کی بیع سے منع فرمایا ہے۔۔۔۔

بالجملہ مذہب راجح پر بیع الفلوس بالدراہم والدنانیر میں ایک ہی جانب کا قبضہ کافی، پس صورت مستفسرہ میں بیع بلا تردد صحیح اور صراف پر مشتری کے لئے باقی پیسے لازم”فی المبسوط اذا اشتری الرجل فلوسا بدراہم ونقد الثمن ولم تکن الفلوس عندالبائع فالبیع جائز اھ ۱؎ کذا فی الہندیۃ و فیہا عن الحاوی وغیرہ لواشتری مائۃ فلس بدرہم فقبض الدرہم و لم یقبض الفلوس حتی کسدت لم یبطل البیع قیاسا و لوقبض خمسین فلسا فکسدت بطل البیع فی النصف ولو لم تکسد لم یفسد وللمشتری مابقی من الفلوس ملتقطا“مبسوط میں ہے کہ جب کسی نے درہموں کے عوض پیسے خریدے اور ثمن نقدا ادا کردئے مگر بائع کے پاس اس وقت پیسے موجود نہیں تو بیع جائز ہے۔ہندیہ میں یونہی ہے۔ اسی میں حاوی وغیرہ سے منقول ہے اگرکسی نے ایک درہم کے عوض سو پیسے خریدے، بائع نے درہم پر قبضہ کرلیا مگر مشتری نے ابھی پیسوں پر قبضہ نہیں کیا تھا کہ وہ کھوٹے ہوگئے تو قیاس کی رو سے بیع باطل نہیں ہوئی اوراگر پچاس پیسوں پر قبضہ کیا تھا کہ وہ کھوٹے ہوگئے تو نصف میں بیع باطل ہوگئی اگر وہ کھوٹے نہ ہوتے بیع فاسد نہ ہوتی اور مشتری باقی پیسے لینے کاحقدار ہوتا ۔ تلخیص،

”وفی التنویر وشرحہ باع فلوسا بمثلہا او بدراہم اوبدنانیر فان نقد احدہما جازوان تفرقا بلاقبض احدہما لم یجز ومسئلۃ المقام یستدعی اکثر من ھذا وفیما ذکرنا کفایۃ واﷲ تعالٰی اعلم“تنویر اور اس کی شرح میں ہے کہ کسی نے پیسوں کو ان کی مثل کے عوض یا درہموں کے عوض یا دیناروں کے عوض بیچا پس اگر دونوں میں سے ایک نے نقد ادائیگی کردی توبیع جائز ہے اور اگر دونوں قبضہ کئے بغیر متفرق ہوگئے تو ناجائز ہے۔اس مقام کا مسئلہ اس سے زیادہ تفصیل کا تقاضا کرتاہے اورجو کچھ ہم نے ذکر کیا اس میں کفایت ہے اور اللہ تعالیٰ بہتر جانتاہے۔“ (فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ632۔۔۔،رضافاونڈیشن،لاہور)

ہندیہ میں ہے

”لو أسلم نقرة فضة أو تبرا من الذهب أو المصوغ في الزعفران قال أبو يوسف رحمه الله تعالى يجوز “

ترجمہ:اگر سونے یا چاندی کے ٹکڑے یازعفران سے بنی کسی چیز میں سلم کی تو امام ابو یوسف نے فرمایا کہ یہ جائز ہے۔(الفتاوی الہندیہ ،کتاب البیوع،الفصل الثاني في بيان ما يجوز السلم فيه وما لا يجوز،جلد3،صفحہ181،دارالفکر،بیروت)

امام ابویوسف اور امام زفر کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر سونے یا چاندی کے ٹکڑے کی بیع سلم درہم و دینار کے ساتھ کی جائے تو وہ جائز ہے یا نہیں۔امام ابو یوسف کے نزدیک جائز ہے اور امام زفر کے نزدیک ناجائز ہے۔یہ اختلاف درہم و دینار کی وجہ سے ہے جہاں تک فلس کے ساتھ بیع سلم کا تعلق ہے تو اس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔بدائع الصنائع میں ہے

” فأما إذا أسلم نقرة فضة، أو تبر ذهب، أو المصوغ فيها فهل يجوز؟ ذكر الاختلاف فيه بين أبي يوسف، وزفر على قول أبي يوسف يجوز، وعلى قول زفر لا يجوز.(وجه) قول زفر: أنه وجد علة ربا النساء وهي أحد وصفي علة ربا الفضل، وهو الوزن في المالين فيتحقق الربا.(وجه) قول أبي يوسف: أن أحد الوصفين الذي هو علة القدر المتفق لا مطلق القدر، ولم يوجد؛ لأن النقرة، أو التبر من جنس الأثمان، وأصل الأثمان، ووزن الثمن يخالف وزن المثمن على ما ذكرنا، فلم يتفق القدر فلم توجد العلة؛ فلا يتحقق الربا كما إذا أسلم فيها الدراهم، والدنانير، ولو أسلم فيها الفلوس جاز؛ لأن الفلس عددي، والعدد في العدديات ليس من، أوصاف العلة “

ترجمہ:تو بہر حال جب کسی نے چاندی کے ٹکڑے یا سونے کی ڈھلی یا جس کو ان سے بنایا گیا ہو ان میں بیع سلم کی تو کیا یہ جائز ہے؟اس بارے میں امام ابو یوسف اور امام زفر رحمہمااللہ کے درمیان اختلاف مذکور ہے۔امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے قول کے مطابق جائز ہےاور امام زفر رحمہ اللہ کے مطابق جائز نہیں ہے ۔امام زفر کی دلیل یہ ہےکہ ربا النساء کی علت پائی گئی اور وہ ربا الفضل کی علت کے دو وصفوںمیں سے ایک ہےاور وہ دونوں مال میں وزن ہےتو ربا ثابت ہو گیا۔امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہےکہ دو وصفوں میں سے ایک جوہے وہ قدرمتفق علت ہے نہ کہ مطلق قدر اور وہ نہیں پائی گئی، اس لئے کہ چاندی کا ٹکڑا اور سونے کی ڈھلی ثمن کی جنس اوراصل ثمن میں سے ہیں اور ثمن کا وزن مبیع کے وزن کے مخالف ہوتا ہے بمطابق اس کے جو ہم نے ذکر کیا ،تو قدرمتفق نہیں لہذا علت نہ پائی گئی تو ربابھی ثابت نہ ہو گاجیسا کہ جب کسی نےان میں دراہم اور دنانیر کی بیع سلم کی۔ اگر ان میں فلوس کی بیع سلم کی تو جائز ہے اس لئے کہ فلوس عددی ہیں اور عدد، عددیات میں علت کے اوصاف میں سے نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،كتاب البيع،فصل في شرائط الصحة في البيوع،جلد5،صفحہ186،دار الكتب العلمية،بيروت)

واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبہ

ابواحمد مفتی محمد انس رضا قادری

29 ذوالقعدہ1444ھ19جون 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں