مردوعورت کی نماز میں فرق

مردوعورت کی نماز میں فرق

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عورتوں اور مردوں کی نماز میں کیا فرق ہے اور یہ فرق کہاں سے ثابت ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ہدایۃ الحق والصواب

مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق ہے اور یہ فرق احادیث و آثار اور اصولوں سے ثابت ہے۔عورت چونکہ نازک ہوتی ہے اور شریعت نے اس پر پردہ لازم کیا ہے ،ا س لیے اس کی نماز کو بھی اسی طور پر رکھا گیا ہے کہ جو اس کے لیے آسان اوراس میں زیادہ پردہ ہو۔

مردو عورت کی نماز میں فرق درج ذیل ہیں:

1۔ پہلا فرق یہ ہے کہ مرد تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور عورت اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے اور چادر سے باہر نہ نکالے۔

2۔دوسرا فرق یہ ہے کہ مرد رکوع میں گھٹنوں کو پکڑے اور زور دے،بازو بھی سیدھے رکھےجبکہ عورت صرف ہاتھ رکھے زور نہ دے اور عورت کی انگلیاں ملی ہوئی ہوں۔

3۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ مرد سجدہ کرتے ہوئے پیٹ رانوں سے بازو پہلو سے جدا رکھے جبکہ عورت سجدہ سمٹ کر کرے بازو کروٹوں سے،پیٹ ران سے،اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے ملا دے۔

4۔ چوتھا فرق یہ ہےکہ مرد قعدہ میں بیٹھتے ہوئے الٹا پاؤں بچھا کر بیٹھے اور سیدھا پاؤں کھڑا کرے جب کہ عورت تورک کرے یعنی سجدے اور قعدےمیں دونوں پاؤں سیدھی طرف نکال دے اور اپنے جسم کے الٹے حصے(سرین) پر بیٹھ جائے۔

صحابی رسول حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

”قال لی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : یاوائل بن حجر اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا“

ترجمہ:مجھ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا : اے وائل بن حجر ! جب تم نماز پڑھو تو ہاتھ کانوں تک بلند کرو اور اور عورت اپنے ہاتھوں کو سینے تک اٹھائے۔(مجمع الزوائد ومنبع الزوائد، جلد 2، ص 272، دارالفکر، بیروت)

سینے پر ہاتھ رکھنا اور ناف کے نیچے ہاتھ رکھنا دونوں احادیث سے ثابت ہیں۔اب عورت کے لئے سینے پر ہاتھ رکھنا اور مرد کے لئے ناف کے نیچے ہاتھ رکھناکس وجہ سے لیا گیا اس کا جواب دیتے ہوئے امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

’’اقول(میں کہتا ہوں)اﷲکی توفیق سے کہ اس مسئلہ پر ایک حدیث جید الاسناد پیش کروں اس کی تقریریوُں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہاتھ باندھنے کی دو صورتیں مروی ہیں: ایک صورت زیرِ ناف کی ہے اور اس بارے میں متعدد احادیث وار د ہیں سب سے اہم روایت وہ ہے جسے ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنے مصنّف میں ذکر کیا کہ ہمیں وکیع نے موسی بن عمیر سے علقمہ بن وائل بن حجر نے اپنے والد گرامی رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ میں نے دورانِ نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھے دیکھا ہے۔ امام علامہ قاسم بن قطلو بغاحنفی رحمہ اﷲتعالیٰ اختیار شرح مختار کی احادیث کی تخریج کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کی سند جیّد اور تمام راوی ثقہ ہیں ۔

’’دوم بر سینہ نہادن و دریں باب ابن خزیمہ را حدیثے است درصحیح خودش ہم از وائل ابن حجر رضی اﷲ عنہ: قال صلیت مع رسول اﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوضع یدہ الیمینی علی یدہ الیسرے علی صدرہ ‘‘ دوسری صورت سینے پر ہاتھ باندھنے کی ہے۔ اس بارے میں ابن خزیمہ اپنے صحیح میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی روایت لائیں ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی معیت میں نماز پڑھنے کا شرف پایا تو آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھے۔

’’وازانجاکہ تاریخ مجہول است وہر دور روایت ثابت و مقبول ناچارکار بتر جیح افتاد چوں نیک نگریم مبنائے ایں امر بلکہ تمام افعال صلاۃ بر تعظیم است و معہود و معلوم عندالتعظیم دست زیرِ ناف بستن است، ولہذا امام محقق علی الاطلاق در فتح فرماید: فیحال علی المعھود من وضعھا حال قصد التعظیم فی القیام والمعھود فی الشاھد منہ تحت السرہ‘‘چونکہ اس کی تعریف کا علم نہیں کہ کون سی روایت پہلے کی ہے اور کون سی بعد کی اور دونوں روایات ثابت و مقبول ہیں تو لاجرم دونوں میں سے کسی ایک کو ترجیح ہوگی۔ جب ہم نماز کے اس فعل بلکہ نمازکے تمام افعال پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ تمام کے تمام تعظیم پر مبنی نظر آتے ہیں اور مسلم ومعروف تعظیم کا طریقہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہے لہذا امام محقق علی الاطلاق نے فتح میں فرمایا ہے قیام میں بقصد تعظیم ہاتھ باندھنے کا معاملہ معروف طریقے پر چھوڑا جائے اور قیام میں تعظیما ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ہی معروف ہے ۔

’’پس دربارہ مرداں روایت ابن ابی شبیہ راحج تر آمد و درامرزنان شرع مطہر راکمال نظر برستروحجاب است و لہذا فرمودند :خیر صفوف الرجال اولھا وشرھا اٰخر ھا و خیرصفوف النساء اٰخرھا وشر ھا اولھا ؎ اخرجہ الستہ الاالبخاری عن ابی ھریرۃ والطبرٰنے فی الکبیر عن ابی امامۃ وعن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنھم وفرمودند صلاۃ المرأۃ فی بیتھا افضل من صلاتھا فی حجرتھا وصلاتھا فی مخدعھا افضل من صلاتھا فی بیتھا ‘‘لہذامردوں کے بارے ابن ابی شیبہ کی روایت راجح ہے اور چونکہ خواتین کے معاملہ میں شرع مطہر کا مطالبہ کمال ستر حجاب ہے،اس لئے فقہاء نے فرمایا مردوں کی پہلی صف افضل اور آخری غیر افضل اور خواتین کی آخری صف افضل اور پہلی غیر افضل یہ حدیث صحاح ستہ کی تمام کتابوں میں ہے سوائے بخاری کے ۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت ابو امامہ اورحضرت عبدﷲبن عباس رضی اﷲعنھم سے روایت کیاہے ، یہ بھی فرمایا عورت کی نماز کمرے میں گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل اور خاص چھوٹے کمرے میں اس سے بھی افضل ہے۔۔۔۔ترمذی نے سند حسن کے ساتھ حضرت عبداﷲبن مسعودرضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کیاکہ نبی اکرم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:عورت تمام کی تمام قابل ِستر وحجاب ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عورتوں کے حق میں سینے پر ہاتھ باندھنا، زیرِناف باندھنے سے زیادہ حجاب اور حیا کی صورت میں ہے ۔اور خواتین کا تعظیم کرناستر وحجاب کی صورت میں ہے کیونکہ تعظیم ادب کے بغیر اور ادب حیا کے بغیر حاصل نہیں ہوتا لہذا خواتین کے حق میں حدیث ابن خزیمہ زیادہ راجح ثابت ہوئی اور ثابت ہوگیا کہ دونوں مسائل میں ایسی حدیث موجود ہے جس کی سند جیّد ہے اور ماہر علماء ِ حدیث نے دونوں مقامات پر حدیث و ترجیح پر ہی عمل فرمایا ہے رحمۃ اﷲ علیہم اجمعین۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ،جلد6،صفحہ144۔۔،رضافائونڈیشن،لاہور)

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

”عن عطاء قال: تجتمع المراة إذا ركعت ترفع يديها إلى بطنها وتجتمع ما استطاعت“

ترجمہ: حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت سمٹ کر رکوع کرے گی، اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف ملائے گی، جتنا سمٹ سکتی ہو سمٹ جائے گی۔(مصنف عبدالرزاق، باب تكبير المرأة بيديها، وقيام المرأة وركوعها وسجودها ، جلد3،صفحہ 137،حدیث5069، المجلس العلمي،الهند)

امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب المراسیل میں یزیدبن حبیب سے نقل کیاہے، فرماتے ہیں:

”أن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مر علی امرأتین تصلیان، فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ لیست فی ذٰلک کالرجل“

ترجمہ:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاگزر دوعورتوں پر ہواجونمازپڑھ رہی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایاجب تم سجدہ کروتو اپنے گوشت (جسم ) کاکچھ حصہ زمین سے ملایاکرو،کیونکہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں۔ (کتاب المراسیل ،باب ماجاء فی من نام عن الصلوٰۃ ،ص8،مطبوعہ افغانستان)

کنزالعمال میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’

إذا جلست المرأۃ فی الصلاۃ وضعت فخذہا علی فخذہا الأخری فإذا سجدت ألصقت بطنہا فی فخذیہا کأستر ما یکون لہا، وإن اللہ تعالی ینظر إلیہا ویقول:یا ملائکتی أشہدکم أنی قد غفرت لہا‘‘

ترجمہ:جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ران کے اوپر ران رکھ کر بیٹھے اورجب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے اس طرح کہ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے،اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر رحمت فرماتاہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!گواہ ہوجائو کہ میں نے اس کی بخشش کردی ہے۔(کنز العمال،کتاب الصلوٰۃ،صلاۃ المرأۃ من الإکمال،جلد7،صفحہ920،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

السنن الکبری للبیہقی میں ہے

”عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله علیه وسلم أَنَّه قَالَ: … وَکَانَ یَأْمُرُالرِّجَالَ أَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِي التَّشَهُّدِ وَ یَأْمُرُالنِّسَاءَ أَنْ یَّتَرَبَّعْنَ“

ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں۔ (السنن الکبری للبیهقي، باب من ذكر صلاة وهو في أخرى ،جلد2،صفحہ314،حدیث 3198، دار الكتب العلمية، بيروت )

جامع المسانید میں ہے

”عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ سُئِلَ: كَيْفَ كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كُنَّ يَتَرَبَّعْنَ ، ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ يَحْتَفِزْنَ“

ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں نماز کس طرح ادا کرتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا: پہلے توچہار زانوں ہو بیٹھتی تھیں، پھر ان کو حکم دیا گیا کہ دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر سرین کے بل بیٹھیں۔ (جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمی ج1ص400، مسند أبي حنیفة روایة الحصكفي: رقم الحديث 114)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے

”عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه اَنَّه سُئِلَ عَنْ صَلاة الْمَرْأةِ فَقَالَ: تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ“

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے۔ (مصنف ابن أبي شیبة ، المرأة کیف تکون في سجودها، جلد1،صفحہ 241،رقم الحدیث2778، مكتبة الرشد – الرياض)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:

”عورت رکوع میں تھوڑا جھکے یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں پیٹھ سیدھی نہ کرے اور گھٹنوں پر زور نہ دے بلکہ محض ہاتھ رکھ دے اور ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی رکھے اور پاؤں جھکے ہوئے رکھے مردوں کی طرح خوب سیدھے نہ کر دے۔عورت سمٹ کر سجدہ کرے ، یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے، اور پیٹ ران سے، اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے۔دوسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد بایاں پاؤں بچھا کر دونوں سرین اس پر رکھ کر بیٹھنا اور دہنا قدم کھڑا رکھنا اور دہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرنا یہ مرد کے لیے ہے اور عورت دونوں پاؤں دہنی جانب نکال دے اور بائیں سرین پر بیٹھے ۔“ (ملخصا ازبہار شریعت، جلد 1،حصہ 3 ،ص 526تا530 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

محمد شاہد حمید

8 ذوالقعدہ 1444ھ بمطابق29 مئی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں