عید الاضحی کی نماز کا مستحب وقت

عید الاضحی کی نماز کا مستحب وقت

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ عید الاضحی کی نماز کا وقت کب تک ہے اور اس میں نماز کی ادائیگی کا افضل وقت کونسا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

صورت مسئولہ کا حکم یہ ہے کہ نماز عید الاضحی عذر کے سبب گیارہویں یا بارہویں ذوالحج کے ارتفاع شمس(سورج بلند ہونے) سے نصف النہار شرعی تک مؤخر کرنا بلا کراہت جائز ہے اور بغیر عذر کے دس ذوالحجہ سے مؤخر کرنا مکروہ ہے مأثور(جس اثر وارد ہوا اس)کی مخالفت کےسبب، اس کے بعد نماز نہیں ہو سکتی۔قربانی کے سبب نماز عید الاضحیٰ اول وقت میں جلد ادا کرنا مستحب ہے۔

مراقی الفلاح مع طحطاوی میں ہے:

”وتؤخر” صلاة عيد الأضحى “بعذر” لنفي الكراهة وبلا عذر مع الكراهة لمخالفة المأثور “إلى ثلاثة أيام” لأنها مؤقتة بوقت الأضحية فيما بين الارتفاع إلى الزوال ولاتصح بعدها“

ترجمہ: عید الاضحی کی نماز موخر کی جاسکتی ہے عذر کے سبب بلاکراہت اور اگر عذر نہیں تو موخر کرنے میں کراہت ہے اور اس میں تین دن کی اجازت اس لیے ہے کہ اس عید میں تین دن تک قربانی ہوسکتی ہے مگر سورج بلند ہونے سے زوال سے قبل تک اس کی ادائیگی درست ہے اس کے بعد نماز صحیح نہیں ہوگی۔ ( حاشية الطحطاوي علي المراقي، كتاب الصلاة، باب صلاة العيد،صفحہ 538،مطبوعہ دار الکتب العربیہ بیروت)

در مختار مع رد المحتار میں ہے:

”لکن ھنا یجوز تاخیر فی آخر ثالث ایام النحر بلا عذر مع الکراھہ وبہ ای بالعذر (بدونھا) فالعذر ھنا لنفی الکراھہ و فی الفطر للصحۃ“

ترجمہ:لیکن عیدالاضحی (کی نماز) کو ایام النحر کے تیسرے دن کے آخر یعنی زوال تک بلا عذر موخر کرنا جائز ہے جبکہ اس میں کراہت ہوگی اور عذر کے ساتھ کراہت کے بغیر موخر کرنا جائز ہے۔ یہاں عذر کراہت کی نفی کے لیے ہے اور عید الفطر میں نماز کی صحت کے لیے ہے ۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ باب العیدین،جلد2 صفحہ 176،مطبعہ مصطفی البابی مصر)

بہار شریعت میں ہے:

”عيدالاضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تک(بارہویں کے زوال تک) بلا کراہت مؤخر کر سکتے ہیں، بارہویں کے بعد پھر نہیں ہو سکتی اور بلاعذر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔“(بہار شریعت باب عیدین کا بیان جلد 1،حصہ 4،صفحہ 784،مکتبہ المدینہ کراچی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

”وقت صلاۃ العیدین من حین تبیض الشمس الی أن تزول کذا فی السراجیہ وکذا فی التبیین ۔ والافضل ان یعجل الاضحی و یوخر الفطر کذا فی الخلاصۃ“

ترجمہ :یعنی عیدین کی نماز کا وقت سورج کے سفید ہونے سے زوال تک ہے یہی سراجیہ میں لکھا ہے اور ایسا ہی تبیین میں بھی ہے البتہ عید الاضحی میں جلدی پڑھنا اور عید الفطر میں تاخیر کرنا افضل ہے اسی طرح خلاصۃ الفتاوی میں ہے ۔(فتاوی عالمگیری باب العیدین جلد 1،صفحہ 150،المطبعۃ الکبری الامیریہ مصر)

بہار شریعت میں ہے:

”نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوۂ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک ہے، مگر عیدالفطر میں دیر کرنا اور عیدالاضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے۔“ ( بہار شریعت باب عیدین کا بیان جلد 1،حصہ 4،صفحہ 781، مکتبہ المدینہ کراچی)

واللّٰہ تعالٰی و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

محمد شاہد حمید

7ذوالحج1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں