سنت مؤکدہ میں سورتوں کی تکرار اور ترتیب

سنت مؤکدہ میں سورتوں کی تکرار اور ترتیب

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ کیا ۴ رکعت والی سنت مؤکدہ میں ہر رکعت میں سورۃ الکوثر پڑھ سکتے ہیں؟ یا پھر پہلی دو رکعت میں سورۃالکوثر اور آخری دو رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھ سکتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ھدایۃ الحق والصواب

چار سنت مؤکدہ میں سورۃ الکوثر یا کسی بھی سورت کی تکرار کرنا درست ہے اور پہلی دو رکعت میں سورۃ الکوثر اور آخری دو میں سورۃ الاخلاص پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔

تفصیل اس میں یہ ہے کہ چند احکام کے علاوہ سنت مؤکدہ کی چاروں رکعتیں ایک ہی نماز کے حکم میں ہیں،لہذا اس میں ایک ہی سورت کی تکرار میں تو حرج نہیں لیکن سورتوں کی ترتیب کا لحاظ رکھنا ہوگا اور پہلے رکعت میں کم قراءت اور دوسری میں زیادہ قراءت کرنا درست نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع میں بھی سنت مؤکدہ کو واجب کے ساتھ ملحق کیاہے

”لو أخبر بالبيع وهو في الصلاة فمضى فيها فالشفيع لا يخلو من أن يكون في الفرض أو في الواجب أو في السنة أو في النفل المطلق فإن كان في الفرض لا تبطل شفعته؛ لأن قطعها حرام فكان معذورا في ترك الطلب، وكذا إذا كان في الواجب؛ لأن الواجب ملحق بالفرض في حق العمل، وإن كان في السنة فكذلك؛ لأن هذه السنن الراتبة في معنى الواجب سواء كانت السنة ركعتين أو أربعا كالأربع قبل الظهر حتى لو أخبر بعدما صلى ركعتين فوصل بهما الشفع الثاني لم تبطل شفعته؛ لأنها بمنزلة صلاة واحدة واجبة“

ترجمہ:اگرنماز پڑھتے ہوئےبیع کی خبر دی گئی تو اس نے نماز جاری رکھی۔پس شفیع یا تو فرض پڑھ رہا ہو گا یاواجب یا سنت یا مطلق نفل،اگر تو وہ فرض میں ہو تو اس کا حق شفعہ باطل نہیں ہو گا کہ فرض کو توڑنا حرام ہے۔ لہذا وہ طلب نہ کرنے میں معذور ہے ۔اگر واجب میں پڑھ رہا ہو تو بھی یہی حکم ہے کہ واجب عمل کے اعتبار سے فرض کے ساتھ ملحق ہےاور اگر سنت پڑھ رہا ہو تو بھی یہی حکم ہے کہ سنت مؤکدہ واجب کے معنی میں ہی ہیں برابر ہے کہ یہ سنتیں دو رکعات کی ہوں یا چار رکعات کی جیسے کہ ظہر سے پہلے کی چار رکعتیں، حتی کہ اگر اسے دو رکعتیں پڑھنے کے بعد خبر دی گئی اور پھر وہ اگلی دو بھی پڑھنے لگ گیا تو اس کا حق شفعہ باطل نہیں ہو گاکیونکہ یہ ایک ہی واجب نماز کے حکم میں ہے۔ (بدائع الصنائع،جلد 5،صفحہ ،18، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے:

” اما مافی الدر المختار، ولایکرہ فی النفل شیئ من ذلک فمع قطع النظر عما اورد علی ھذہ الکلیۃ لم یثبت ان النفل ھھنا یشمل السنۃ المؤکدۃ بل ھو مقابلھا وقدقالہ فی الدر المختار قبیلہ، وفی الحجۃ: یقرأ فی الفرض بالترسل حرفا حرفا وفی التراویح بین بین وفی النفل لیلا، لہ ان یسرع بعد ان یقرأ کمایفھم“ترجمہ:درمختارمیں جوہے کہ ان میں سے کوئی شئے(تکرار و ترتیب وغیرہ) نوافل میں مکروہ نہیں تو اس پروارد شدہ اعتراض سے قطع نظر کرتے ہوئے یہاں یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نفل سنت مؤکدہ کوبھی شامل ہے بلکہ سنت مؤکدہ تو اس کے مقابل ہے، حالانکہ اس سے تھوڑا پہلے درمختار میں ہی فرمایا: حجہ میں ہے کہ فرائض میں قرأت آہستہ آہستہ حرف حرف پڑھے اور تراویح میں ترسل واسراع کے درمیان درمیان اور رات کے نوافل میں اتنا تیزپڑھ سکتاہے جو سمجھ آسکے۔“

(فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ475،رضا فاونڈیشن،لاہور)

در مختار میں ہے :

”لا بأس أن يقرأ سورة ويعيدها في الثانية ۔۔۔۔ولایکرہ فی النفل شیئ من ذلك“

ترجمہ:اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایک سورت پڑھی جائے اور دوسری رکعت میں اسے دوبارہ لوٹایا جائے (یہاں تک) کہ نفل میں ان میں سے کوئی شے بھی مکروہ نہیں۔(الدرالمختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ ،جلد1،صفحہ546،دارالفکر،بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”ویکرہ تکرار السورۃ فی رکعۃ واحدۃ فی الفرائض ولا باس بذالک فی التطوع کذا فی فتاوی قاضی خان وإذا كرّر آية واحدة مراراً فإن كان في التّطوع الذي يصلّي وحده فذالك غير مكروه، وإن كان في الصلاة المفروضة فهو مكروه في حالة الاختيار، وأمّا في حالة العذر والنّسيان فلا بأس“

ترجمہ:ور ایک ہی سورت اور اگر نمازی ایک ہی آیت کا تکرار بار بار کرے تو اگر وہ نفل نماز میں ہے جسکو وہ اکیلے پڑھ رہا ہے تو یہ مکروہ نہیں ہے اور اگر فرض نماز میں ہے تو یہ مکروہ ہے (دوسری سورتیں پڑھنے) کا اختیار ہونے کی حالت میں بہر حال کسی عذر یا بھولنے کی وجہ سے (تکرار) ہو تو کوئی حرج نہیں ۔(فتاوی ہندیہ ،کتاب الصلاۃ،الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا،الفصل الثّاني فيما يكره في الصلاة،جلد1،صفحہ107،دارلفکر،بیروت)

نورالایضاح میں ہے:

” ولا بأس بتكرار السورة في الركعتين من النفل“

ترجمہ: نوافل کی دو رکعتوں میں ایک ہی سورت کا تکرار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔( نور الإيضاح ونجاة الأرواح في الفقه الحنفي، کتاب الصلاۃ ،فصل فیما لا یکرہ للمصلی، صفحة 75)

امام اہلسنت فتاوی رضویہ میں تراویح کے اندر سورت اخلاص کی تکرار کا حکم بتاتے ہوے فرماتے ہیں:

”جائز ہے بلا کراہت، اگرچہ سورہ فیل سے آخر تک تکرار کا طریقہ بہتر ہے کہ اس میں رکعات کی گنتی یاد رکھنی نہیں پڑتی ۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 7 ،صفحہ 460 ، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

در مختار میں پہلی رکعت میں چھوٹی اور دوسری میں بڑی سورۃ پڑھنے کے حوالے سے ہے:

”و اطالۃ الثانیۃ علی الاولی یکرہ تنزیھا اجماعا “

ترجمہ:اور دوسری رکعت کو پہلی پر لمبا کرنا مکروہ تنزیہی ہے اجماعا ۔

اسکے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں:

”والحاصل ان سنیۃ اطالۃ الاولی علی الثانیۃ کراھیۃ العکس“

اور حاصل یہ ہے کہ پہلی رکعت کو دوسری پر لمبا کرنا سنت ہے اور اس کا الٹ کرنا مکروہ ہے۔(در مختار مع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،فصل فی القراءۃ،مطلب السنۃ تکون سنۃ عین ۔۔الخ جلد1،صفحہ542، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”دوسری رکعت کی قراء ت پہلی سے طویل کرنا مکروہ ہے جبکہ بیّن (واضح) فرق معلوم ہوتا ہو اور اس کی مقدار یہ ہے کہ اگر دونوں سورتوں کی آیتیں برابر ہوں تو تین آیت کی زیادتی سے کراہت ہے اور چھوٹی بڑی ہوں تو آیتوں کی تعداد کا اعتبار نہیں بلکہ حروف و کلمات کا اعتبار ہے، اگر کلمات و حروف میں بہت تفاوت ہو کراہت ہے اگرچہ آیتیں گنتی میں برابر ہوں ، مثلاً پہلی میں اَلَمْ نَشْرَحْ پڑھی اور دوسری میں لَمْ یَكُنْ تو کراہت ہے، اگرچہ دونوں میں آٹھ آٹھ آیتیں ہیں ۔“(بہار شریعت ،جلد1،حصہ3،صفحہ552، مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

کتبہ:

انتظار حسین مدنی کشمیری

مؤرخہ 14 فروری 2023 بروز منگل

اپنا تبصرہ بھیجیں