حنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھنا

حنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ باہر کے ممالک میں رہنے والے ہندوستان اور پاکستان کے حنفی مسلمانوں کے لیے یہ ایک بڑی آزمائش ہے کہ وہ حنفی وقت کے مطابق عصر کی نماز نہیں پڑ پاتے کیونکہ دیگر کثیر ممالک میں شافعی وقت کے مطابق عصر ہوتی ہے اور اسی وقت میں وقفہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں حنفی حضرات کیا کریں؟کیا شافعی امام کے پیچھے شافعی وقت کے مطابق عصر پڑھ سکتے ہیں؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ہدایۃ الحق و الصواب

حنفی کی شافعی کے پیچھے شافعی وقت میں عصر جائز نہیں بلکہ حنفی اپنے وقت ہی میں عصر کی نماز پڑھے ۔اگر حنفی وقت میں مواضع خلاف سے بچنےوالے شافعی کے پیچھے نماز عصر باجماعت ملے تو فبہا ورنہ اپنے وقت میں تنہا نماز پڑھے۔

فتاوی ہندیہ اور فتاوی رضویہ میں ہے:

”ووقت العصر من صيرورة الظل مثليه غير فيء الزوال إلى غروب الشمس. هكذا في شرح المجمع“

ترجمہ:عصرکا وقت سوائے سایۂ زوال(یعنی اصلی)کےدو مثل سایہ ہونے سے سورج غروب ہونے تک ہے۔(فتاوی ہندیہ،الباب الاول فی المواقیت،ج1ص51،مطبوعہ پشاور،فتاوی رضویہ،ج5 ،ص 132،رضافاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت،سنی بہشتی زیور میں ہے:

”وقت عصربعد ختم ہونے وقت ظہر کے یعنی سوا سایہ اصلی کے دو مثل سایہ ہونے سےآفتاب ڈوبنے تک ہے۔“(بہار شریعت ج1حصہ3صفحہ 449-450 مکتبۃ المدینہ،سنی بہشتی زیور،صفحہ181، فرید بک سٹال لاہور)

فتاوی فقیہ ملت میں لکھا ہے:

”اگر شافعی وقت حنفی شروع ہونے کے بعدعصر ادا کرے کرے تو حنفی کی نماز اس کے پیچھے ہوگی ورنہ نہیں۔“

مزید لکھا:

”اگر وہ مثل اول کے بعد نماز عصر پڑھتے ہیں تو ہماری ان کے پیچھےنماز نہیں گی اوراگر مثلین کے بعد پڑھیں گے تو ان کی بھی ہو جائے گی اور ہماری بھی۔“(فتاوی فقیہ ملت،جلد 1،صفحہ 145.146،شبیر برادرز لاہور مفہوما)

سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

” فتاوی عالمگیری میں ہے”والاقتداء بشافعي المذهب إنما يصح إذا كان الإمام يتحامى مواضع الخلاف بأن يتوضأ من الخارج النجس من غير السبيلين كالفصدولایکون متعصبا وأن لا يتوضأ في الماء الراكد القليل وأن يغسل ثوبه من المني ويفرك اليابس منه وأن يمسح ربع رأسه. هكذا في النهاية والكفايةولا يتوضأ بالماء القليل الذي وقعت فيه النجاسة كذا في فتاوى قاضي خان“

ترجمہ: شافعی المذہب امام کی اقتداء اس وقت جائز ہےجب وہ مواضع خلاف سے بچتا ہو مثلاً غیر سبیلین سے خارج نجاست مثلا رگ کاٹنے کی وجہ سے وضو کرتا ہو،مسلک میں متعصب نہ ہو، کھڑے تھوڑے پانی سے وضو نہ کرنے والا ہو منی لگنے کی صورت میں کپڑا دھوتا ہو یا خشک ہو جانے کی صورت میں اسے کھرچ دیتاہو،سر کے چوتھائی حصے کا مسح کرتاہو نہایہ اور کفایہ میں اسی طرح ہے اور اس تھوڑے پانی سے وضو جائز نہ سمجھتاہوجس میں نجاست واقع ہوئی ہو۔ فتاوی قاضی خان میں اسی طرح ہے۔(ماخوذ از رضویہ بحوالہ ،فتاوی ہندیہ،الفصل الثالث فی بیان من یصلح اماما لغیرہ، جلد1،صفحہ 84، مطبوعہ پشاور،ملتقطا)

واللّٰہ تعالیٰ ورسولہ اعلم باالصواب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

محمد شاہد حمید

8جون 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں