جس کی قراءت درست نہ ہو اس کے پیچھے نمازیں پڑھنا

جس کی قراءت درست نہ ہو اس کے پیچھے نمازیں پڑھنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص الفاظ کو اپنے مخارج سے ادا نہ کرتا ہو، اور ایک حرف کو دوسرے حرف سے تبدیل کر دیتا ہو(یعنی ھ اور ح میں فرق نہ کرسکتا ہو وغیرہ)، اسے امام بنانا کیسا ہے اور اس کے پیچھے عام نمازیں اور جمعہ و عید ین پڑھنا کیسا؟جو نماز پڑھی گئی اس کا کیا حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب

سوال میں پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ حروف کے مخارج کا انتا خیال رکھنا کہ جس سے ہر حرف دوسرے سے ممتاز و الگ ہو جائے فرض ہے، اور اگر مخارج کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے فاسد معنی پیدا ہو گیا تو نماز بھی فاسد ہوجائے گی اور جو امام حروف کے مخارج کا خیال نہ رکھتا ہو اسے امام بنانا جائز نہیں، اگر اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز بھی نہیں ہوگی۔

قرآن پا ک میں ہے

{وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا }

ترجمہ کنز الایمان: اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ (سورۃ المزمل،سورت73،آیت4)

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

“بلا شبہ اتنی تجوید جس سے تصحیح حروف ہو اور غلط خوانی سے بچے، فرض عین ہے۔” (فتاویٰ رضویہ جلد6، صفحہ343، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

بہار شریعت میں ہے:

“قراءت اس کا نام ہے کہ تمام حروف مخارج سے ادا کیے جائیں، کہ ہر حرف غیر سے صحیح طور پر ممتاز ہو جائے۔”(بہار شریعت جلد1، حصہ3، صفحہ515، مکتبۃ المدینہ کراچی)

فتاویٰ رضویہ میں ہے:

”فساد معنی اگر ہزار آیت کے بعد ہو نماز جاتی رہے گی۔“(فتاویٰ رضویہ جلد 6، صفحہ 351 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’ قرآن مجید کلام الٰہی عزوجل ہے جو عربی زبان میں نازل ہوا’’قال صدر الشریعۃ فی التوضیح القراٰن ھو النظم الدال علی المعنیٰ‘‘اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا{انا انزلناہ قراٰنا عربیا۔بلسان عربی مبین}پس قرآن پڑھنے کا یہ مطلب ہے کہ اس عبارت کو اس طرح پڑھا جائے کہ اس میں تبدیل و تغیر نہ ہونے پائے ،ورنہ اکثر جگہ وہ الفاظ بے معنیٰ ہو جائینگے یامعنیٰ فاسد ہو کر کچھ کا کچھ ہو جائے گا۔ لہذا اس کو اسی طور پر اداکرنا لازم ہے جس کو قرآن کہا جائے اور اسکے لئے یہ ضرور ہے کہ ہر حرف کو اس کے مخرج سے ادا کیا جائے،مثلا ث،س،ص، ز، ظ، ح،ء،ع کو ان حروف میں اگر امتیاز نہ ہو تو وہ لفظ ہی نہ رہا جو جبرئیل علیہ السلام نے پڑھا اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلاوت فرمائی۔ جس کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا{یتلوا علیھم اٰیٰتہ} ۔‘‘ (فتاوٰی امجدیہ،جلد1،صفحہ157، مکتبہ رضویہ ،کراچی)

امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے جب ایسے امام کے متعلق سوال ہوا جو الحمد والرحمن والرحیم کو الھمدوالرہمان والرھیم پڑھتاہے تو آپ نے ارشاد فرمایا:

’’اُسے امام بنانا ہرگز جائز نہیں اورنماز اس کے پیچھے نادرست ہے کہ اگر وہ شخص ح کے ادا پر بالفعل قادر ہے اور باوجود اس کے اپنی بے خیالی یا بے پروائی سے کلمات مذکورہ میں ھ پڑھتا ہے۔تو خود اس کی نماز فاسد وباطل ،اوروں کی اسکے پیچھے کیا ہوسکے،اور اگر بالفعل ح پر قادر نہیں اور سیکھنے پر جان لڑاکر کوشش نہ کی تو بھی خود اس کی نماز محض اکارت ، اور اس کے پیچھے ہر شخص کی باطل، اور اگر ایک ناکافی زمانہ تک کوشش کر چکا پھر چھوڑ دی جب بھی خود اس کی نماز پڑھی بے پڑھی سب ایک سی ، اور اُس کے صدقے میں سب کی گئی اور برابر حد درجہ کی کوشش کئے جاتا ہے مگر کسی طرح ح نہیں لکلتی تو اُس کاحکم مثل اُمّی کے ہے کہ اگر کسی صحیح پڑھنے والے کے پیچھے نماز مل سکے اور اقتداء نہ کرے بلکہ تنہا پڑھے تو بھی اسکی نماز باطل ، پھر امام ہونا تو دوسرا درجہ ہے اور پر ظاہر ہے کہ اگر بالفرض عام جماعتوں میں کوئی درست خواں نہ ملے تو جمعہ میں تو قطعاً ہر طرح کے بندگان خدا موجود ہوتے ہیں پھر اس کا اُن کی اقتدا نہ کرنا اور آپ امام ہونا خود اس کی نماز کا مبطل ہوا ،اور جب اس کی گئی سب کی گئی۔‘‘

(فتاوٰی رضویہ ،جلد6،صفحہ253،رضا فائونڈیشن،لاہور)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم

حسن محمود سعیدی

25 جون 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں