بچے کی نماز جنازہ کب پڑھی جائے گی کب نہیں

بچے کی نماز جنازہ کب پڑھی جائے گی کب نہیں

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ہدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت میں اس بچے کا مسنون غسل و کفن نہیں ہوگا ویسے ہی پانی بہا کر کپڑے میں لپیٹ دیا جائے گا اور نماز جنازہ پڑھے بغیر اسے قبرستان میں دفن کردیں گے۔شرعی طور پر اگر بچہ کا جسم اکثر باہر نکل آئے اور وہ زندہ ہو تو اس کے احکام زندوں والے ہوں گے یعنی غسل و کفن مسنون دیا جائے گااور نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اگر آدھا یااس سے کم ہی باہر تھا اور فوت ہوگیا تو زندوں والے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔اکثر کی مقدار یہ ہے کہ سر کی جانب سے ہو تو سینہ تک اکثر ہے اور پاؤں کی جانب سے ہو تو کمر تک۔ بچہ زندہ پیدا ہو یا مردہ اس کا نام رکھا جائے کہ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔

در مختار مع رد المحتار میں ہے:

”(ومن ولد فمات يغسل ويصلى عليه) ويرث ويورث ويسمى (إن استهل)…فلو خرج رأسه وهو يصيح ثم مات لم يرث، ولم يصل عليه ما لم يخرج أكثر بدنه حيا بحر عن المبتغى. وجد الأكثر من قبل الرجل سرته، ومن قبل الرأس صدره نهر عن منية المفتي۔۔۔(وإلا) يستهل (غسل وسمي) … (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه)“

ترجمہ: اور جو بچہ پیدا ہوا پھر مر گیا اسے غسل دیا جائے گا اور اس پر جنازہ پڑھا جائے اور وہ وارث ہوگا اور اس کی بھی وراثت تقسیم ہوگی اور اس کا نام بھی رکھا جائے،اگر وہ چلایا۔اور اگر اس کا سر نکلا اور وہ چیخا پھر مر گیا تو وہ وارث نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر جنازہ پڑھا جائے جب تک کہ اس کے بدن کا اکثر حصہ زندہ ہونے کی حالت نہ نکلے۔بحر میں مبتغی سے مروی ہے۔ اور پاؤں کی جانب سے اکثر حصہ ناف تک ہے اور سر کی جانب سے اکثر حصہ سینہ تک ہے نہر میں منیۃ المفتی کے حوالے سے ہے۔ اور اگر نہ چلایا تو(غیر مسنون طریقہ سے)غسل دیا جائے اور کپڑے میں لپیٹ کر جنازہ پڑھے بغیر دفن کیا جائے۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،ج2، ص227/228،مطبعہ مصطفی البابی مصر،ملتقطا)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”وإن مات حال ولادته فإن كان خرج أكثره صلي عليه وإن كان أقله لم يصل عليه وإن خرج نصفه لم يذكر في الكتاب ويجب أن يكون هذا على قياس ما ذكرنا من الصلاة على نصف الميت، كذا في البدائع“

ترجمہ:اگر ولادت کے وقت بچہ وفات پا گیا اگر تو وفات سے پہلے اکثر حصہ باہر نکلا تھا تو اس پر جنازہ پڑھا جائے اور اگر کم حصہ باہر نکلا تو اس پر جنازہ نہ پڑھا جائے۔ اور نصف حصہ نکلا تو اس کا کتاب میں ذکر نہیں ضروری ہے کہ اسے نصف میت کے جنازہ پر قیاس کیا جائے۔اسی طرح بدائع میں ہے۔(فتاوی ہندیہ،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی والعشرون،الفصل الخامس،ج1،ص163،المطبعۃ الکبری الامیریہ مصر)

بہار شریعت میں ہے:

”مسلمان مرد یا عورت کا بچہ زندہ پیدا ہوا یعنی اکثر حصہ باہر ہونے کے وقت زندہ تھا پھر مر گیا تو اُس کو غسل و کفن دیں گے اور اس کی نماز پڑھیں گے، ورنہ اُسے ویسے ہی نہلا کر ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیں گے، اُس کے لیے غسل و کفن بطریق مسنون نہیں اور نماز بھی اس کی نہیں پڑھی جائے گی، یہاں تک کہ سر جب باہر ہوا تھا اس وقت چیختا تھا مگراکثر حصہ نکلنے سے پیشتر مر گیا تو نماز نہ پڑھی جائے۔اکثر کی مقدار یہ ہے کہ سر کی جانب سے ہو تو سینہ تک اکثر ہے اور پاؤں کی جانب سے ہو تو کمر تک۔ ۔۔۔بچہ زندہ پیدا ہوا یا مُردہ اُس کی خلقت تمام ہو یا نا تمام بہرحال اس کا نام رکھا جائے اور قیامت کے دن اُس کا حشر ہوگا۔“(بہار شریعت،حصہ 4، صفحہ 841، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم باالصواب

محمد شاہد حمید

25 مئی 2023

اپنا تبصرہ بھیجیں