سودا کینسل کرنے پر کٹوتی

سودا کینسل کرنے پر کٹوتی

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں قسطوں پر زمین بیچتا ہوں بعض اوقات ایک بندہ قسطیں دینے سے عاجز آجائے تو وہ کہتا ہے کہ بقیہ قسطیں میں نہیں دے سکتا آپ عقد ختم کردیں اب میرے اس میں دیگر اخراجات ہوئے ہوتے ہیں جیسے قسطیں لینے اور اس کا حساب کتاب رکھنے کے لیے ملازم رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کو تنخواہ دینی ہوتی ہیں اب کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ عقد کینسل کر کے زمین واپس لے لی جائے اور جتنی قسطیں اس نے جمع کروائی ہیں ان میں سے کچھ کٹوتی کر کے اس کی مکمل رقم ایسے واپس کردی جائے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

شرعی طو رپر جب بندہ قسطیں دینے سے آجائے تو پہلے اسے کچھ مہلت دی جائے کہ یہ لازم ہے۔ پھر جب سودا کینسل کرنا ہے تو اس میں سے کچھ کٹوتی کرنا جائز نہیں ۔شرعا اس طرح عقد ختم کرنے کو اقالہ کہتے ہیں ،جس کی شرح میں بہت فضیلت ہے۔اگر زمین میں کوئی نقص نہیں پیدا ہوا تو پھر اقالہ اسی رقم کے حساب سے ہوگا جو کہ مشتری نے ادا کی ہے اس میں کمی و بیشی کرنے کی شرط باطل ہے ۔

قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے:

(وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍؕ)

ترجمہ کنزالایمان: اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک۔ (سورۃ البقرۃ،پ03،آیت280)

سنن ابن ماجہ اور سنن ابو داؤد میں ہے

”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أقال مسلمًا، أقاله الله عثرته يوم القيامة“

ترجمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان سے اقالہ کیا،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُس سے لغزش دفع فرمادے گا۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب الإقالۃ،الحدیث2199، جلد 3، صفحہ 36، مطبوعہ، بیروت)

ردالمختار میں ہے

”ھی لغہ الرفع من اقال اجوف یائی وشرعا رفع البیع“

ترجمہ:اقالہ کا لغوی معنی اٹھانا رفع کرنا ہے یہ اقال سے ماخوذ اجوف یائی ہے اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد بیع کو ختم کرنا ہے ۔(ردالمختار ،جلد 5، صفحہ 120، دار الفکر، بیروت)

ھدایہ میں ہے

”فان شرط اکثر منہ او اقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الاول “

ترجمہ:پس اگر اگر ثمنِ اول سے زیادہ یا اس سے کم کی شرط لگائی ،تو شرط باطل ہے اور بائع ثمنِ اول کا مثل ہی واپس کرے گا ۔(ہدایہ ، کتاب البیوع، جلد5،صفحہ 249 مطبوعہ، بیروت)

تبیین الحقائق میں ہے

”وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأكثر أو الأقل بلا تعيب وجنس آخر لغو ولزمه الثمن الأول“

ترجمہ:اور اقالہ ثمن اول کے ساتھ صحیح ہے اور کمی یا زیادتی کی شرط باطل ہے جب کہ وہ عیب سے خالی ہو اور ادائیگی میں دوسری جنس کا تعین کرنا لغو ہے اور اس پر ثمن اول ہی لازم ہے ۔(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق، جلد 4 ،صفحہ 71 ،مطبوعہ، دار الفکر، بیروت)

ردالمختار میں ہے

” (قوله: وبالسكوت عنه) المراد أن الواجب هو الثمن الأول سواء سماه أو لا، قال في الفتح: والأصل في لزوم الثمن، أن الإقالة فسخ في حق المتعاقدين، وحقيقة الفسخ ليس إلا رفع الأول كأن لم يكن فيثبت الحال الأول، وثبوته برجوع عين الثمن إلى مالكه كأن لم يدخل في الوجود غيره وهذا يستلزم تعين الأول، ونفي غيره من الزيادة والنقص وخلاف الجنس “

(قوله: وبالسكوت عنه) اور اس سے مراد یہ ہے کہ واجب ثمن اول ہی ہیں چاہے وہ ان کا نام لے یا نہ لے اور فتح میں مذکور ہے کہ لازم ثمن میں اصل یہ ہے کہ اقالہ متعاقدین کے حق میں فسخ ہے اور فسخ کی حقیقت یہ ہے کہ پہلے عقد کو ختم کرنا ہی ہے گویا کہ پہلی حالت ثابت ہی نہیں اور اس کا ثبوت بعینہ وہی قیمت مالک کے سپرد کرنے کے ساتھ سے ہوتا ہے گویا کہ اس کا غیر اس میں داخل ہی نہیں ہے اور یہ ثمن اول کو متعین کرنے اور زیادتی اور کمی اور خلاف جنس میں سے غیر کی نفی کرنا لازم ہے ۔(رد المحتار، جلد 5 ،صفحہ 125، دار الفکر ،بیروت)

فتویٰ ھندیہ میں ہے

”باع جاریہ بالف درھم وتقابلا العقد فیھا بالف درھم صحت الاقالہ وان تقابلا بالف وخمسائہ صحت الاقالہ بالف ویلغو ذکر الخمسمائہ وان تقابلا خمس مائہ فان کان المبیع قائما فی ید المشتری علی حالہ و لم ید خلہ عیب صحت الاقالہ بالف و یلغو ذکر بخمسمائہ فیجب علی البائع رد الالف علی مشتری وان دخلہ عیب تصح الاقالہ بخمسمائہ ویصیر المخطوط بازاء النقصان“

ترجمہ:اگر کوئی باندی ایک ہزار کو بیچی پھر ایک ہزار پر بیع کا اقالہ کیا تو اقالہ صحیح ہے اور اگر ڈیڑھ ہزار پر اقالہ کیا تو اقالہ ایک ہزار پر صحیح ہوگا اور باقیہ پانچ سو کا ذکر لغو ہےاور اگر دونوں نے پانچ سو پر اقالہ کیا پس اگر مبیع مشتری کے پاس اپنے حال پر باقی ہے اور اس میں کچھ عیب نہیں ہے تو یہ اقالہ ایک ہزار پر صحیح ہوگا اور پانچ سو کا ذکر لغو ہے پس بائع پر واجب ہے کہ ایک ہزار مشتری کو واپس کر دے اور اگر اس میں عیب آ گیا ہو تو اقالہ پانچ سو پر صحیح ہے اور یہ کمی بمقابلہ نقصان کے ہوگا۔(فتویٰ ھندیہ، کتاب البیوع، باب فی الاقالہ ،جلد 3 ،صفحہ 164 ،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

بہار شریعت میں ہے:

”دوشخصوں کے مابین جو عقد ہوا ہے اس کے اُٹھا دینے کو اقالہ کہتے ہیں یہ لفظ کہ میں نے اقالہ کیا، چھوڑ دیا، فسخ کیا یا دوسرے کے کہنے پر مبیع یا ثمن کا پھیر دینا اور دوسرے کا لے لینا اقالہ ہے۔“(بہار شریعت، جلد 2 ،حصہ 11، صفحہ 739 ،مکتبہ المدینہ، کراچی)

بہار شریعت میں ہے:

”جو ثمن بیع میں تھا اُسی پر یا اُس کی مثل پر اقالہ ہوسکتا ہے اگر کم یازیادہ پر اقالہ ہواتو شرط باطل ہے اور اقالہ صحیح یعنی اُتنا ہی دینا ہوگا جو بیع میں ثمن تھا۔مثلاً ہزار روپے میں ایک چیز خریدی اُ س کااقالہ ہزار میں کیایہ صحیح ہے اور اگر ڈیڑھ ہزار میں کیا جب بھی ہزاردینا ہوگا اور پانسوکا ذکر لغو ہے اورپانسو میں کیا اور مبیع میں کوئی نقصان نہیں آیا ہے جب بھی ہزار دینا ہوگا اور اگر مبیع میں نقصان آگیا ہے توکمی کے ساتھ اقالہ ہوسکتا ہے۔“(بہار شریعت، جلد 2 ،حصہ 11، صفحہ 740، مکتبہ المدینہ ،کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

13جمادی الاول 1445ھ28نومبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں