چندہ کی رقم رکھ کر بھول جانا

چندہ کی رقم رکھ کر بھول جانا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ زید دینی کاموں کے لئے چندہ جمع کرتا ہے اس کے پاس شاپر میں چندہ کی رقم تھی بقول اس کے کہ میں نماز عصر سے فارغ ہوا تو شاپر میرے پاس تھا پھر کہیں رکھا اور مجھے یاد نہیں رہا کہ کہاں رکھا ہے اب نہیں مل رہا۔ کیا زید پر تاوان ہو گا؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب الھم ہدایۃ الحق و الصواب

صورت مسئولہ میں زید پر چندہ گم ہونے کے سبب تاوان لازم ہے کیونکہ چندہ کی رقم اس کے پاس امانت تھی اور جو امانت کے بارے کہے کہ مجھے معلوم نہیں کہاں رکھی تھی اس صورت میں تاوان لازم ہوتا ہے۔

العقود الدریہ میں ہے:

”المقبوض فی ید الوکیل امانۃ فی منزلۃ الودیعۃ“

ترجمہ:جو چیز وکیل کے قبضے میں ہے وہ ودیعت کے درجے میں امانت ہے۔(العقود الدریہ،ج1،ص341،دار المعرفہ بیروت)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

”اذا وضع الودیعۃ فی مکان حصین فنسی موضعھا اختلف فیہ المشائخ رحمھم اللہ والصحیح انہ لو قال وضعت فی داری لایضمن وان قال لاادری وضعت فی داری اور فی مکان آخر کان ضامنا“

ترجمہ:اگر امانت محفوظ جگہ میں رکھ کر بھول گیا تو اس میں مشائخ کا اختلاف ہے اور صحیح قول یہ کہ اگر کہا کہ میں نے گھر میں رکھی تھی تو ضامن نہیں ہو گا اور اگر کہے کہ مجھے علم نہیں گھر رکھی تھی یا اور جگہ،تو ضامن ہو گا۔(فتاوی قاضی خان،قبیل فیما یعد تضییعا،ج3،ص270، مطبوعہ کراچی)

محیط برہانی میں ہے:

”إذا وضع الوديعة في مكان حصين فنسي اختلف المشايخ فيه: قال بعضهم: يضمن، وقال بعضهم: لا يضمن؛ قال الصدر الشهيد: والمختار أنه إذا قال: وضعت في داري، فنسيت المكان لا يضمن؛ لأن له أن يضع في داره، وإن قال: لا أدري وضعت في داري أو في موضع آخر يضمن؛ لأنه لا يدري أنه وضع في موضع له ولاية الوضع“

ترجمہ:جب امانت کسی محفوظ جگہ پر رکھی پھر بھول گیا اس میں مشائخ کا اختلاف ہے بعض نے کہا ضامن ہو گا اور بعض نے کہا نہیں، صدر شہید نے فرمایا مختار یہ کہ جب کسی نے کہا میں نے اپنے گھر میں رکھی تھی پھر جگہ بھول گیا تو ضامن نہیں ہو گا کیونکہ اسے اختیار ہے کہ وہ اپنے میں رکھے اور اگر اس نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ گھر میں رکھی تھی یا اور جگہ، تو ضامن ہو گا کیونکہ اسے یہ معلوم نہیں کہ اس نے ایسی جگہ امانت کو رکھا جہاں اسے رکھنے کا اختیار ہے۔ (المحیط البرہانی،کتاب الودیعۃ،الفصل الرابع،ج5، ص533، دار الکتب العلمیہ بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”رجل دفع إلى دلال ثوبا ليبيعه،۔۔۔ لا ضمان عليه، ولو قال: نسيت ولا أدري في أي حانوت وضعت، يكون ضامنا “

ترجمہ:کسی نے دلال کو کپڑا بیچنے کے لئے دیا اور وہ کہتا ہے میں بھول گیا اور مجھے نہیں معلوم کہ کس دکان میں رکھا تھا تو اس پر تاوان ہو گا۔(فتاوی ہندیہ،کتاب الودیعۃ،الباب الرابع، ج4،ص342، دار الفکر بیروت)

واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ اعلم باالصواب

صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

26ربیع الآخر1445ھ

11نومبر2023ءہفتہ

اپنا تبصرہ بھیجیں