مسبوق کا امام کے پیچھے قعدہ اخیرہ میں درود و دعا پڑھنا

مسبوق کا امام کے پیچھے قعدہ اخیرہ میں درود و دعا پڑھنا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ امام کے قعدہ اخیرہ میں مسبوق(یعنی جس کی کوئی رکعت رہ گئی ہو، اس ) اس نے غلطی سے تشہد کے بعد درود اور دعا پڑھ لی تو کیا حکم ہے؟ کیا اس پر سجدہ سہو ہوگا؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

بیان کی گئی صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں۔ بلکہ مسبوق قصداً بھی قعدہ اخیرہ میں درود و دعا پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو نہیں اگرچہ اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ وہ تشہد کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، تاکہ امام کے سلام پھیرنے کے وقت فارغ ہو ۔اگر تشہد امام سے پہلے پڑھ لیا ہے تو کلمہ شہادت کی تکرار کرے۔ کتب فقہ میں اس مسئلہ کے بارے میں مختلف اقوال مذکور ہیں اور ان سب کا خلاصہ یہی ہے کہ مقتدی خاموش نہ بیٹھے یا آہستہ تشہد پڑھے یا کلمہ شہادت کی تکرار کرے اور اگر درود و دعا بھی پڑھے تو حرج نہیں۔سجدہ سہو لازم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مقتدی کا نماز کے دوران دعا میں مشغول ہونا، تاخیرِ ارکان کا سبب ہوتا ہے اور تاخیرِ ارکان یہاں نہیں پائی گئی، کیونکہ امام کے سلام سے پہلے اس کے لیے اٹھنا ممکن نہیں۔

بحر الرائق میں ہے:

”وأطلق المصنف التشهد والصلاة فشمل المسبوق ولا خلاف أنه في التشهد كغيره وأما في الصلاة والدعاء فاختلفوا على أربعة أقوال اختار ابن شجاع تكرار التشهد وأبو بكر الرازي السكوت وصحح قاضي خان في فتاواه أنه يترسل في التشهد حتى يفرغ منه عند سلام الإمام، وصحح صاحب المبسوط أنه يأتي بالصلاة والدعاء متابعة للإمام؛ لأن المصلي لا يشتغل بالدعاء في خلال الصلاة لما فيه من تأخير الأركان وهذا المعنى لا يوجد هنا؛ لأنه لا يمكنه أن يقوم قبل سلام الإمام وينبغي الإفتاء بما في الفتاوى“

ترجمہ:اور مصنف نے تشہد اور درود کو مطلق ذکر کیا، جو مسبوق کو بھی شامل ہے اور مُدْرِک کی طرح اس کے تشہد پڑھنے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس (مسبوق) کے درود اور دعا پڑھنے میں فقہائےکرام رحمہم اللہ تعالی علیہم اجمعین کے چار مختلف اقوال ہیں۔(1)ابن شجاع نے تشہد کی تکرار کو اختیار فرمایا۔ (2)اور ابو بکر رازی نے سکوت (خاموش رہنے)کو اختیار فرمایا۔ (3)امام قاضی خان علیہ الرحمۃ نے اپنے فتاوی میں اس کی تصحیح کی ہے کہ وہ تشہد کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، حتی کہ امام کے سلام پھیرنے کے وقت یہ تشہد سے فارغ ہو۔ (4)اور صاحبِ مبسوط نے اس کی تصحیح فرمائی کہ مسبوق امام کی متابعت میں درود اور دعا بھی پڑھے، کیونکہ مقتدی کا نماز کے دوران دعا میں مشغول ہونا، تاخیرِ ارکان کا سبب ہوتا ہے اور تاخیرِ ارکان یہاں نہیں پائی گئی، کیونکہ امام کے سلام سے پہلے اس کے لیے اٹھنا ممکن نہیں اور مناسب یہ ہے کہ فتوی اسی قول پر دیا جائے، جو فتاوی میں ہے۔ (بحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 575، مطبوعہ کوئٹہ)

المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے:

”وقال بعضهم: يسكت، وقال بعضهم: هو بالخيار إن شاء أتى بالدعوات المذكورة في القرآن، وإن شاء صلى على النبي عليه السلام“ترجمہ:اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ مسبوق تشہد کے بعد خاموش رہے اور بعض فرماتے ہیں کہ اسے اختیار ہے کہ چاہے تو قرآن میں مذکوردعائیں پڑھے اور چاہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔ (المحیط البرھانی ،الفصل السادس فی التغنی والالحان ،جلد1،صفحہ 374،مطبوعہ بیروت)

فتاوی امجدیہ میں مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فقہائےکرام کےاقوال نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:”بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر مسبوق تشہد پڑھے اور باوجود اس کے امام کے فارغ ہونے سے پہلے اگر تشہد سے فارغ ہو گیا، تو کلمہ شہادت کی تکرار کرے کہ ترسل سے مقصد یہی تھا کہ یہ بیکار نہ رہے۔“(فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 181، مکتبۃ رضویہ، کراچی)

شہزادہِ اعلی حضرت،مفتی اعظم ہند، مولانا مصطفی رضا خان رحمۃاللہ علیہ سے سوال ہوا:” کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں کہ اگر امام سے قبل بعد تشہد درود شریف ودعا سے فارغ ہو گیا تو سلام پھیرنے تک زید کچھ پڑھے یا خاموش رہے، شرکت جماعت ابتدائی ہویا درمیانی ؟

آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:”مقتدی اگر امام سے قبل تشہد اور درود ودعا سے فارغ ہو جائے، تو تشہد کے اول سے مکرر پڑھے یا اگر کوئی دوسری دعا محفوظ یا وہ جومشابہ الفاظ قرآن ہو، کرے یا کلمہ شہادت کی تکرار کرے یا سکوت کرے جو چاہے اور صحیح یہ ہے کہ عجلت سے نہ پڑھے، اس طرح پڑھے کہ امام کے ساتھ فارغ ہو، غنیہ میں ہے:”اذا فرغ من التشھد قبل سلام الامام یکررہ من اولہ وقیل یکررہ کلمۃ الشھادۃ وقیل یسکت وقیل یاتی بالصلوۃ والدعاء والصحیح انہ یترسل لیفرغ من التشھد عند سلام الامام “اور اگر قعدہ اولی میں امام سے پہلے تشہد سے فارغ ہو، تو تا فراغ امام خاموش ہی بیٹھے، یہاں اقوالِ مختلفہ نہیں۔۔۔اس اشتغال یا سکوت کو تاخیر سلام سے علاقہ نہیں، تاخیر تو جب ہوتی کہ جب تشہد ودرودودعا سے فارغ ہوتے ہی سلام واجب ہوتا ۔خروج عن الصلوہ بلفظ السلام واجب ہے، نہ یہ کہ تشہد ودرود ودعا پڑھتے ہی سلام معاً واجب ہے،جائز ہے کہ وہ ایک دعا کے بعد اور چند اَدْعِیَہ پڑھے۔“(فتاوی مصطفویہ ،کتاب الصلوۃ ،صفحہ 215،مطبوعہ شبیر برادرز،لاھور)

واللہ اعلم باالصواب

غلام رسول قادری مدنی

8ربیع الثانی 1445ھ

23اکتوبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں