عصر کی نماز کے بعد نمازِ جنازہ

عصر کی نماز کے بعد نمازِ جنازہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ کیا عصر کی نماز کے بعد نمازِ جنازہ ادا کی جا سکتی ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

نماز جنازہ تین مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت ادا کی جا سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، لہذا نماز عصر کے بعد بھی نماز جنازہ اد کرنا جائز ہے۔ نیز تین مکروہ اوقات میں بھی نماز جنازہ ادا کرنا اسی وقت مکروہ ہے جبکہ جنازہ، جنازہ گاہ میں پہلے سے ہی تیار موجود ہو اور اتنی تاخیر کی جائے کہ مکروہ وقت شروع ہو جائے، تو اب مکروہ وقت میں نمازجنازہ اد اکرنا مکروہ تحریمی ہوگا، لیکن اگر میت کو جنازہ گاہ میں لایا ہی مکروہ وقت میں گیا ، تو اس صورت میں اسی وقت میں نمازِ جنازہ پڑھنا بھی بلاکراہت جائز ہے۔

مکروہ اوقات تین ہیں: (1) طلوعِ آفتاب کے بعد تقریبا بیس منٹ (2) ضحوۂ کبریٰ (نصف النہار شرعی سے زوال تک) (3)غروب آفتاب سے قبل تقریبا بیس منٹ۔

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی حصکفی ﷫ (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

” فلو وجبتافيهالم يكره فعلهما:أي تحريماوفي التحفة: ‌الأفضل ‌أن ‌لا تؤخر ‌الجنازة “

ترجمہ: اوراگر نمازِ جنازہ وسجدہ تلاوت مکروہ وقت میں واجب ہوں،تو ان کو اسی وقت میں ادا کرنا مکروہ تحریمی نہیں ہے، اورتحفۃ الفقہاء میں ہےکہ( مکروہ وقت میں جنازہ حاضر ہو) تو مؤخر نہ کرنا افضل ہے۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الصلوة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 58، مطبوعه: دار الکتب العلمیة، بیروت)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی ﷫ (المتوفى: 1252ھ/1836ء) مذکورہ بالا عبارت کے تحت لکھتے ہیں:

”(قوله: أي تحريما) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية. (قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلا، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج لحدیث:”ثلاث لایؤخرون”منھا “الجنازۃ اذا حضرت” وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه “

ترجمہ:شارح کا “أي تحریما”کہنا، اِس مسئلہ میں کراہتِ تنزیہی کو ثابت کرتا ہے، (لیکن اس کے فوراً بعد)شارح کا کہنا: تحفۃ الفقہاء میں ہے الخ، یہ دراصل ”تحریما“والے قول سے پیداہونے والے مفہوم سے استدراک ہے، کیونکہ تحفۃ الفقہاء کی عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ جب جنازہ میں تاخیرنہ کرنا افضل ہے،تواصلاًکراہت رہے گی ہی نہیں (یعنی کراہتِ تنزیہی بھی نہیں ہوگی)، اور جو قول تحفۃ الفقہاء میں نقل کیا گیا ہے، اِسی کو بحر الرائق، نہر الفائق، فتح القدیر اور معراج الدرایۃ میں برقرار رکھا گیا ہے، اس حدیث پاک کی وجہ سےکہ ” تین کاموں کو مؤخرنہ کیا جائے”ان میں سے ایک “جنازہ ہے کہ جب حاضر ہو چکا ہو۔”اور شرح المنیہ میں فرمایا:اورنمازِ جنازہ اورسجدہ تلاوت میں فرق ظاہر ہے کیونکہ نمازِ جنازہ میں جلدی کرنا مطلقاً (شریعت کو)مطلوب ہےمگر یہ کہ کوئی مانع موجود ہو، (جیسے)جنازے کامباح وقت میں حاضر ہو چکا ہونا، اسےمکروہ وقت(تک موخرکر کے)پڑھنے سے مانع ہے، بخلاف اس کے کہ جنازہ مکروہ وقت میں حاضر ہوا ہو ( کہ اس میں اصلاً کوئی کراہت نہیں۔)(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 374، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان﷫ (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”نمازِ جنازہ ہر وقت مشروع ہے یہاں تک کہ تینوں اوقات مکروہہ میں بھی، اگر اُسی وقت آیا ہو۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد نمبر11، صفحہ نمبر 185، مطبوعه: رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

آپ ﷫ ارشاد فرماتے ہیں:

”جنازہ اگر آیا خاص طُلوع یا غُروب کے وقت یا نمازِ عصر کے بعد تو پڑھ سکتا ہے اور اگر پہلے سے لایا ہوا رکھا ہے تو جب تک آفتاب بلند نہ ہو یا غُروب نہ ہولے نہ پڑھے۔“(ملفوظات اعلی حضرت، حصه نمبر 3، صفحہ نمبر 379، مطبوعه: مکتبة المدینه ، کراچی)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

18 صفر المظفر 1445ھ / 4 ستمبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں