یہ قسم کھائی کہ میں مرنڈا کی بوتل نہیں پیئوں گا

یہ قسم کھائی کہ میں مرنڈا کی بوتل نہیں پیئوں گا

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نےقسم کھا کر کہا کہ خدا کی قسم میں مرنڈا کی بوتل نہیں پیئوں گا پھر اس کے دوست نے اسے آڑو کا جوس پلا یا جس میں بوتل ڈالی گئی تھی مگر جوس وغیرہ کی مقدار بوتل سے کافی زیادہ تھی اور جوس میں بوتل کا معمولی سا ذائقہ محسوس ہوتا تھا مگراس میں غالب آڑو ہی تھا ، زید کو بھی بوتل کا ذائقہ محسوس ہوا اور اس نے دوست سے دریافت کیا تو دوست نے بتایا کہ جی ہاں اس میں بوتل ذائقہ کے لئے شامل کی ہے کیا زید کی قسم ٹوٹ گئی؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

صورت مستفسرہ کے مطابق اگر زید نے جو آڑو کا جوس پیا اس میں جوس کی مقدار غالب تھی مگر غلبہ کی تعریف میں اختلاف ہے امام ابو یوسف کے نزدیک اگر کسی مائع چیز کو دوسری چیز کے ساتھ مل دیا جائے تو غلبہ تب شمار ہوگا جب کہ مغلوب چیز کا رنگ اور ذائقہ دونوں باقی نہ رہے جب کہ امام محمد کے نزدیک غالب مغلوب کا اعتبار اجزاء کے مطابق ہوگا جس کے اجزاء زائد وہی غالب ہوگا اور یہی صحیح ہے لہذا امام محمد کے قول کے مطابق زید کے جوس میں آڑو کی مقدار اور اجزاء زائد تھے تو یہ غالب ہوئی اور بوتل کے اجزاء کم تھے تو یہ مغلوب ہوئی لہذا اس جوس کے پینے سے زید حانث نہیں ہوگا اگرچے اس کو بوتل کا ذائقہ محسوس ہوا تھا

بحر الرائق میں ہے

اذا حلف لایشرب لبنا لایحنث بشرب الماء الذی فیہ اجزاء اللبن وتعتبر من حیث الاجزاء کذا فی ایمان الخانیہ

جب کسی نے قسم کھائی کے دودھ نہیں پیئے گا تو اس پانی کے پینے سے حانث نہیں ہوگا جس میں دودھ کے اجزاء ہوں اور اجزاء کی حیثیت سے ہی غلبہ کا اعتبار کیا جائے گا جیسا کہ فتاویٰ قاضی خان کی کتاب الایمان میں ہے

(بحر الرائق جلد 3 صفحہ 245 مطبوعہ دار الکتب الاسلامی)

بدائع الصنائع میں ہے

اعتبر محمد غلبہ الاجزاء فقال ان کانت اجزاء المحلوف علیہ غالبا یحنث وان کانت مغلوبہ لایحنث وجہ قول محمد ان حکم یتعلق بالاکثر والاقل یکون تبعا للاکثر فلاعبرہ بہ لابی یوسف ان اللون والطعم اذا کانا باقین الا تری انہ یقال لبن مغشوش دخل مغشوش واذا لم یبق لہ لون ولاطعم لایبقی الاسم ویقال ماء فیہ لبن وماء فیہ خل فلا یحنث

غلبہ میں امام محمد نے اجزاء کا اعتبار کیا ہے اور کہا جس چیز کی قسم کھائی اس کے اجزاء غالب ہو تو قسم ٹوٹ جائے گی اور مغلوب ہو تو قسم نہیں ٹوٹے گی امام محمد کے قول کی وجہ یہ ہے کہ حکم اکثر پر ہوتا ہے اور قلیل کثیر کے تابع ہوتا ہے اور حکم میں قلیل کا اعتبار نہیں ہوتا امام ابو یوسف کی دلیل یہ ہے کہ غالب میں اعتبار رنگ اور ذائقہ کا ہے اگر یہ باقی ہے تو چیز کا نام باقی ہے تم نہیں دیکھتے کہ دودھ میں ملاوٹ کی گئی یا سرکہ میں کچھ ملا دیا اور جب رنگ اور ذائقہ باقی نہ رہے تو تمام باقی نہیں رہے گا اور اگر ایسا پانی جس میں دودھ ملایا یا ایسا پانی جس میں سرکہ ملایا تو حانث نہیں ہوگا

(بدائع الصنائع جلد 3 صفحہ 62 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

بحر الرائق میں ہے

اذا حلف لایشرب لبنا فصب الماء فی اللبن فالاصل فی ھذہ المسالہ واجناسھا ان الحالف اذا عقد یمینہ علی مائع فاختلط ذلک المائع بمائع آخر من خلاف جنسہ ان کانت الغلبہ للمحلوف علیہ یحنث وان کانت الغلبہ لغیر المحلوف علیہ لایحنث وان کانا سواء لقیاس ان یحنث وفی الاستحسان لایحنث فسر ابو یوسف الغلبہ فقال ان کان یستبین لبن المحلوف علیہ ویوجد طعمہ وقال محمد تعتبر الغلبہ من حیث الاجزاء ھذا اذا اختلط الجنس بغیر الجنس

جب کسی نے قسم کھائی کہ دودھ نہیں پیئے گا پھر اس میں پانی ڈال کر پی لیا تو اس مسئلے میں اور اس جنس کے تمام مسائل میں اصول یہ ہے کہ جب قسم اٹھانے والے نے کسی مائع چیز پر قسم اٹھائی پھر اسے دوسری مائع چیز کے ساتھ ملا کر استعمال کیا تو جس چیز کی قسم اٹھائی وہ غالب ہے تو حانث ہوجائے گا اور اگر وہ چیز جس کی قسم نہیں اٹھائی وہ غالب ہے تو حانث نہیں ہوگا اور اگر دونوں برابر ہے تو قیاسا حانث ہوگا استحسانا حانث نہیں ہوگا امام ابو یوسف کے نزدیک غلبہ اس چیز کا ہوگا جس کا رنگ اور ذائقہ پایا جائے امام محمد نے فرمایا غلبہ کا اعتبار اجزاء کے اعتبار سے ہوگا اور یہ مسئلہ اس وقت ہے جب ایک جنس کی مائع چیز کو اس کے خلاف جنس کی مائع چیز میں شامل کیا جائے۔

(بحر الرائق جلد 4 صفحہ 357 مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)

بہار شریعت میں ہے

قسم کھائی کہ یہ سرکہ نہیں کھائے گا اور چٹنی یا سِکَنجبِین کھائی جس میں وہ سرکہ پڑا ہواتھا تو قسم نہیں ٹوٹی

(بہار شریعت جلد 2 حصہ 9 صفحہ 338 مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس

01 ربیع الآخر 1445ھ17اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں