کتنی فاتحہ کی تکرار ہو تو سجدہ سہو لازم ہے؟

کتنی فاتحہ کی تکرار ہو تو سجدہ سہو لازم ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ سورۃ الفاتحہ کی کتنی آیات پڑھ لیں تو اس کا اعادہ نہیں کرسکتے؟نیز قراءت میں برابری اور اضافے میں معیار آیات ہیں یا حروف ہیں؟

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوہاب

اللّٰهم ھدایة الحق والصواب

پوچھی گئی صورت کا حکم یہ کہ فرض کی پہلی دو رکعات اور بقیہ نمازوں کی ہر رکعات میں سورہ فاتحہ کا اکثر حصہ پڑھ لینے کے بعد سورہ فاتحہ کو دوہرانا مکروہ تحریمی ہے۔کیونکہ مذکورہ رکعات میں سورہ فاتحہ کے فوراً بعد سورت ملانا واجب ہے۔ اور سورہ فاتحہ کے اعادہ یعنی دہرانے کی صورت میں واجب فوت ہو جائے گا۔ لہذا اگر کوئی جان بوجھ کر پڑھے گا تو نماز کا اعادہ کرے، یعنی نماز دوبارہ پڑھے، اگر بھول کر سورہ فاتحہ دہرائی تو سجدہ سھو لازم ہو گا۔ اگر اکثر فاتحہ نہ پڑھی پھر دہرائی مثلاً جہری نماز میں ایک دو آیات سرّی یعنی آہستہ پڑھ کر پھر بلند آواز سے سورہ فاتحہ دہرائی تو سجدہ سھو نہیں،نہ ہی نماز کا اعادہ۔ اکثر سورہ فاتحہ کی تعیین حروف کے اعتبار سے کی گئی،اس کے کل حروف 122ہیں۔ مشدد اور وہ حروف نکالیں جائیں جو پڑھنے میں نہیں آتے تو پھر اس کے 106حروف ہیں۔ پہلی چار آیات کے حروف جو پڑھے جاتے ہیں وہ 53 ہیں، اسی طرح بقیہ آیات کے بھی 53 حروف ہیں۔ لہذا لفظ “اِھْدِ” کا بعض حصہ یا مکمل پڑھنے سے آدھی سے زائد سورہ فاتحہ پڑھنا کہلائے گا۔ حروف کا لحاظ اس لئے کیا کیونکہ قراءت کی برابری یا اضافہ میں معتبر قول کے مطابق آیات معیار نہیں، بلکہ حروف کا اعتبار ہے جیسا کہ دو رکعتوں کی قراء ت میں حروف پر فقہائے کرام نے کلام کیا ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

“ولو قرأ الفاتحة إلا حرفا أو قرأ أكثرها ثم أعادها ساهيا فهو بمنزلة ما لو قرأها مرتين، كذا في الظهيرية.”

ترجمہ:”اگر فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کا تکرار کیا تو اس پر سجدہ سہو واجب ہے اور اگر سورہ فاتحہ(پوری) پڑھی سوائے ایک حرف کے یا اکثر سورہ فاتحہ پڑھی پھر بھول کر دوبارہ دہرا لی تو اس کا حکم بھی دو مرتبہ فاتحہ پڑھنے کی طرح ہے۔ اسی طرح ظہیریہ میں ہے”۔

(فتاوی ہندیہ، کتاب الصلاۃ الباب الثانی عشر فی سجود السہو،جلد1، صفحہ 125، دارالفکر بیروت )

فتاوی رضویہ میں ہے:

جزدرفاتحہ کہ دررکعتین اولین پیش ازقرأت سورۃ اعادہ کل یا اکثر اوکند اقول لتفویت واجب الضم پس اگر عامداست اعادہ کند و اگر ساہی است سجدہ سہو۔

ترجمہ:ماسوائے سورہ فاتحہ کے کہ پہلی ۲دو رکعات میں قرأتِ سورت سے پہلے کل سورہ فاتحہ یا اکثر کا اعادہ کرنا کیونکہ یہ مکروہ تحریمی ہے۔ میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ سورت ملانا واجب تھا ،اعادہ کی صورت میں وُہ فوت ہو جاتا ہے، پس اگر کسی شخص نے عمداً ایسا کیا تو اعادہ نماز کرے۔ اور اگر سہواً کیا تو سجدہ سہو ہوگا۔

(فتاوی رضویہ،ج6،ص268، مسئلہ:461، رضا فاونڈیشن لاہور)

سیدی امام اہلسنت اعلی حضرت قدس سرہ العزیز “جدّالممتار” میں فرماتے ہیں:

”لو خافت ببعض الفاتحۃ یعیدہ جھرا لان تکرار البعض لایوجب السھو ولا الاعادۃ و الاخفاء بالبعض یوجبہ فبالاعادۃ جھرا یزول الثانی و لایلزم الاول“۔

ترجمہ:اگر بعض فاتحہ آہستہ قراءت کی تو وہ جہراً اس کا اعادہ کرے کیونکہ بعض کا تکرار سجدہ سہو اور نماز کے اعادہ کو واجب نہیں کرتا اور بعض کو آہستہ پڑھنا سجدہ سہو کو واجب کرتاہے تو جہراً اعادہ کرنے سے دوسرا(نماز کے اعادہ کا وجوب) زائل ہوجاتا اور پہلا (سجدہ سہوکا وجوب)لازم نہیں رہتا۔

(جد الممتار ،کتاب الصلوۃ ،فصل فی القراء ۃ، ج3،ص237،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

بہار شریعت میں ہے:

“الحمد کے بعد سورت پڑھی اس کے بعد پھر الحمد پڑھی تو سجدۂ سہو واجب نہیں۔ یوہیں فرض کی پچھلی رکعتوں میں فاتحہ کی تکرار سے مطلقاً سجدۂ سہو واجب نہیں اور اگر پہلی رکعتوں میں الحمد کا زیادہ حصہ پڑھ لیا تھا۔ پھر اعادہ کیا تو سجدۂ سہو واجب ہے۔”

(بہار شریعت،جلد1،حصہ 4، سجدہ سہو کا بیان، صفحہ 716، مکتبۃ المدینہ کراچی)

حضرت علامہ محمدشریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:

”آہستہ آہستہ سورہ فاتحہ پڑھتارہا، پھر بلندآوازسےپڑھناشروع کیا، تو اگرسورہ فاتحہ کااکثر حصہ پڑھ لیا تھا پھر شروع سے پڑھنا شروع کیا تو بھی سجدہ سہو واجب کہ یہ اکثر سورہ فاتحہ کی تکرارہوئی اوریہ موجب سجدہ سہوہےاگردونوں دفعہ بلاقصد سہو اہوا ہو تو۔اور اگر بالقصد تکرار کی تواعادہ واجب اور اگر سورہ فاتحہ کا اکثر حصہ نہیں پڑھا تھا تونہ سجدہ سہوہے نہ اعادہ “۔

(فتاوی امجدیہ، کتاب الصلوۃ، جلد1،صفحہ282، مکتبہ رضویہ، کراچی)

در مختار میں ہے:

“(وإطالة الثانية على الأولى يكره) تنزيها (إجماعا إن بثلاث آيات) إن تقاربت طولا وقصرا، وإلا اعتبر الحروف والكلمات.”

ترجمہ: “اور دوسری رکعت کی قراءت کو پہلی سے زیادہ طویل کرنا مکروہ تنزیہی ہے بالاجماع، اگر تین آیات کی مقدار تک طویل کیا جائے۔ جبکہ چھوٹی بڑی ہونے میں آیات قریب قریب یعنی ایک جیسی ہوں، ورنہ حروف و کلمات کا اعتبار ہو گا”۔

(در مختار،کتاب الصلاۃ،باب صفة الصلاۃ، صفحہ 68، دار الکتب العلمیہ بیروت)

اس کے تحت ردالمختار میں ہے:

“والحاصل أن سنية إطالة الأولى على الثانية وكراهية العكس إنما تعتبر من حيث عدد الآيات إن تقاربت الآيات طولا وقصرا فإن تفاوتت تعتبر من حيث الكلمات، فإذا قرأ في الأولى من الفجر عشرين آية طويلة وفي الثانية منها عشرين أية قصيرة تبلغ كلماتها قدر نصف كلمات الأولى فقد حصل السنة، ولو عكس يكره، وإنما ذكر الحروف للإشارة إلى أن المعتبر مقابلة كل كلمة بمثلها في عدد الحروف، فالمعتبر عدد الحروف لا الكلمات”۔

ترجمہ:”اور حاصل کلام یہ ہے کہ پہلی رکعت کے دوسری سے طویل ہونے کا سنت ہونا اور اس کے الٹ کا مکروہ ہونا اس میں آیات کا اعتبار ہو گا جبکہ آیات ایک جیسی چھوٹی یا بڑی ہوں، اور اگر ایک جیسی نہ ہوں تو کلمات کا اعتبار کیا جائے گا۔ تو جب فجر کی پہلی رکعت میں اس نے بیس لمبی جبکہ دوسری میں بیس چھوٹی آیتیں پڑھیں جن کے کلمات کی تعداد پہلی کے کلمات کے نصف تک پہنچیں تو سنت پوری ہو گئی اور اگر اس کے برعکس میں مکروہ ہو گئی۔ اور مصنف نے حروف کو ذکر کر کے اس طرف اشارہ کیا کہ ایک کلمہ کا دوسرے کے برابر ہونے میں حروف کی تعداد کا اعتبار ہو گا، تو اصل میں اعتبار حروف کی تعداد کا ہے نہ کہ کلمات کی تعداد کا۔”

(رد المحتار کتاب الصلاۃ فصل فی القراءۃ، جلد1 صفحہ 538، دار الفکر بیروت)

جد الممتار میں ہے:

قولہ”وھی ثلاثون حرفا، اقول: ان اراد المقروءات فھی تسعة و عشرون بجعل میم {ثم} حرفین و اسقاط ھمزۃ {واستکبر}، بل الاقرب الی الصواب ستة و عشرون، فإن المشدد حرف واحد عند التحقيق، وان اراد المكتوبات فهي سبعة و عشرون بجعل كل ميم واحدا و اعتبار الهمزة، والظاهر الأول لان النظر هاهنا الى التلاوة”

ترجمہ: “اور ان(تین آیات

ثُمَّ نَظَرَ.ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ.ثُمَّ اَدْبَرَ وَ اسْتَكْبَرَ. کے) تیس حروف ہیں، (اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ اگر اس سے پڑھے جانے والے حروف مراد لیے جائیں تو انتیس (29) ہیں {ثم} کے میم مشدد کو دو حروف شمار کر کے اور {واستکبر} کے ھمزہ کو ساقط کر کے۔ بلکہ زیادہ درست بات یہ ہے کہ اس کے چھبیس 26 حروف ہیں ہر میم کو ایک شمار کر کے اور ھمزہ کا اعتبار کر کے۔ اور پہلی بات زیادہ بہتر ہے کیونکہ یہاں تلاوت کا اعتبار کیا جائے گا”

(جد الممتار علی رد المحتار، کتاب الصلاۃ، مطلب کل صلاۃ ادیت مع کراھة التحریمة تجب اعادتھا، جلد3،صفحہ151، مکتبۃ المدینہ کراچی)

واللّٰه تعالٰی اعلم و رسوله اعلم باالصواب

صلی اللّٰه تعالٰی علیہ و آلہ و اصحابہ و بارک و سلّم

ابوالمصطفٰی محمد شاہد حمید قادری

2ربیع الثانی1445ھ

19اکتوبر2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں