سوال:جو ڈاکو سر عام ڈکیتی کرتے ہیں انہیں سر عام قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
یوزر آئی ڈی:عدنان احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون المالک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
بغیر سخت ضرورت کے قتل کرنا جائز نہیں قتل کی اجازت اس صورت میں ہے جب جان،مال ضائع ہونے کا یقین ہو اورشور و غل کرنے سے ڈاکو کے بھاگنے کی امید نہ ہو اور یہاں بھی موقع واردات پر قتل کرنے کی اجازت ہے واردات کے بعد اگر ڈاکو کہیں ملے تو اسے قتل کرنا جائز نہیں۔صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”گھر میں چور گھسا اور مال چرا کر لے جانے لگا صاحب خانہ نے پیچھا کیا اور چور کو مار ڈالا تو قاتل کے ذمہ کچھ نہیں مگر یہ اس وقت ہے کہ معلوم ہے کہ شور کرے گا اور چلائے گا تو مال چھوڑ کر نہیں بھاگے گا اور اگر معلوم ہے کہ شور کرے گا تو مال چھوڑ کر بھاگ جائے گا تو قتل کرنے کی اجازت نہیں بلکہ اس وقت قتل کرنے سے قصاص واجب ہوگا۔
(بہار شریعت،جلد 3،حصہ 18،صفحہ 787،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
مزید فرماتے ہیں:جو شخص تلوار مار کر بھاگ گیا کہ اب دوبارہ مارنے کا ارادہ نہیں رکھتا پھر اسے کسی نے مار ڈالا تو قاتل سے قصاص لیا جائے گا۔ یعنی اسی وقت اس کو قتل کرنا جائز ہے جب وہ حملہ کر رہا ہو یا حملہ کرنا چاہتا ہے بعد میں جائز نہیں۔
(بہار شریعت،جلد 3،حصہ 18،صفحہ 787،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ
انتظار حسین مدنی کشمیری
6ذوالقعدۃ الحرام 1444ھ/27مئی2023 ء