عبد النبی،عبدالعلی ، نام رکھنے کا حکم

سوال:کیا عبد العلی ،عبد النبی،وغیرہ نام رکھنا جائز ہے؟

یوزر آئی ڈی:پارٹی سپنٹ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

عبد المصطفیٰ ،عبدالنبی ،عبد الحبیب، عبد العلی(علی سے مراد مولی علی رضی اللہ عنہ ہوں تو) بطور لقب رکھنا تو جائز ہے جیسے اعلیٰ حضرت کا اپنا نام احمد رضا تھا اور لقب عبدالمصطفٰی بھی شامل تھا۔ کیونکہ عبد کی اضافت جب غیر اللہ کی طرف ہو تو عبد بمعنی غلام استعمال ہوتا ہے ہاں عبد العلی سے مراد اگر اللہ پاک کا صفاتی نا ہو تو عبد العلی نام رکھنا بھی درست ہے اور عبد کی غیر اللہ کی طرف نسبت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-ترجمہ:اورتم میں سے جو بغیر نکاح کے ہوں اور تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں ان کے نکاح کردو۔

(القرآن،سورۃ النور،آیت32)

لیکن بطور عَلَم یا نام رکھنا مناسب نہیں ۔ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’فقیرکے اس بارے میں تین رسالے ہیں جومیرے مجموعہ فتاوٰی میں ہیں۔ ایک دربارہ غلام مصطفی اور اس کاجواز دلائل سے ثابت کیاہے۔ دوسرا دربارہ عبدالمصطفیٰ اور اس میں یہ تحقیق کیاہے کہ توصیفاً بلاشبہہ جائزاور اجلہ صحابہ سے ثابت۔ کراہت کہ بعض متاخرین نے لکھی جانب تسمیہ راجع ہے۔‘‘

(فتاوٰی رضویہ،جلد24،صفحہ669،رضافائونڈیشن،لاہور)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ

انتظار حسین مدنی کشمیری

30ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/19جولائی 2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں