سستی کے سبب نماز نہ پڑھنے والے کی امامت

سوال:جو بندہ کبھی کبھار سستی کے سبب نماز چھوڑ دیتا ہو لیکن امامت کی بقیہ تمام شرائط پائی جاتی ہوں تو کیا ایسا شخص امامت کروا سکتا ہے؟

یوزر آئی ڈی:محمد نوید

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک نماز چھوڑنا ناجائز و حرام اور گناہ کبیرہ ہے لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر بندہ اعلانیہ نماز ترک کرتا ہے تو فاسق معلن ہے اور فاسق معلن کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی و گناہ ہے ایسے شخص کے پیچھے پڑھی گئی نماز کا اعادہ کرنا یعنی لوٹانا واجب ہے۔ تبیین الحقائق میں ہے: ” (وكره إمامة العبد والفاسق) لأنه لا يهتم لأمر دينه؛ ولأن في تقديمه للإمامة تعظيمه وقد وجب عليهم إهانته شرعا “ترجمہ: غلام اور فاسق کی امامت بھی مکروہِ تحریمی ہےکیونکہ وہ دینی احکامات کی پرواہ نہیں کرتا، اور اس لئے بھی کہ اسے ( یعنی فاسق کو ) امام بنانے میں اس کی تعظیم ہے جبکہ شرعاً ان پر اس کی اہانت واجب ہے۔

( تبيين الحقائق،جلد 01، صفحہ 134 ،مطبعہ کبری)

صدر الشریعہ بد رلطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحہ لکھتے ہیں: اور فاسقِ معلن جیسے شرابی، جواری، زناکار، سود خوار، چغل خور، وغیرہم جو کبیرہ گناہ بالاعلان کرتے ہیں، ان کو امام بنانا گناہ اور کو امام بنانا گناہ اور ان کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ۔

(بہار شریعت، جلد 01، حصہ 03، صفحہ 568، 569، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ

انتظار حسین مدنی کشمیری

6ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/25جون2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں