سانپ کومارنا کیسا؟

سوال:سانپ کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟اسے مار سکتے ہیں یا نہیں ؟

یوزر آئی ڈی:شاہ جی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

سانپ کو مارنا بلکل جائز بلکہ مستحب ہے کیونکہ یہ نقصان پہنچانے والا جانور ہے حدیث پاک میں اسے قتل کرنے کی ترغیب موجود ہے ہاں چند قسم کے سانپوں کو بغیر تنبیہ کے مارنے سے منع کیا گیا ہے ۔ سانپ کو مارنے کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اقتلوا الحیات کلھن فمن خاف ثارھن فلیس منی“ یعنی تمام سانپوں کوقتل کرو ، جو اُن کے بدلہ لینے کے ڈرسےچھوڑ دے وہ مجھ سے نہیں۔

(ابو داؤد، جلد2، صفحہ 372، مطبوعہ لاہور)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قتل سانپ کا مستحب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےاس کے قتل کا حکم کیا ہے یہاں تک کہ اس کے قتل کی حرم میں اور محرم کو بھی اجازت ہے اور جو خوف سے چھوڑ دے ، اس کے لیے لفظ”لیس منی”حدیث میں وارد۔“

بغیر تنبیہ کے جن سانپوں کو مارنے سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت امام احمد رضا خان فرماتےہیں:”قتل اسی سانپ کاکہ سپیدرنگ ہے اور سیدھاچلتاہے یعنی چلنے میں بل نہیں کھاتا قبلِ انداز وتحذیرکے ممنوع ہے، اور اسی طرح وہ سانپ جومدینہ کے گھروں میں رہتے ہیں بے انذار وتحذیرکے نہ قتل کئے جائیں مگرذوالطیفتین کہ اس کی پیٹھ پر دوخط سپید ہوتے ہیں اورابتر کہ ایک قسم ہے سانپ کی کبود رنگ کوتاہ دم، اور ان دونوں قسم کے سانپوں کاخاصہ ہے کہ جس کی آنکھ پر ان کی نگاہ پڑجائے اندھاہوجائے، زنِ حاملہ اگرانہیں دیکھ لے حمل ساقط ہو کہ اس طرح کے سانپ اگرمدینہ طیبہ کے گھروں میں بھی رہتے ہوں تو ان کامارنا بے انذارکے جائزہے۔۔۔ بالجملہ قتل سانپ کامستحب اورسپید اور ساکن بیوت مدینہ کا سوا ذوالطیفتین اورابتر کے بے انذاروتحذیر کے ممنوع ہے مگرطحاوی کے نزدیک بے انذار میں بھی کچھ حرج نہیں او رانذار اولیٰ ہے۔ “

(فتاوی رضویہ ، جلد24، صفحہ645۔652، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور، ملخصاً)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ

انتظار حسین مدنی کشمیری

29ذوالقعدۃ الحرام 1444ھ/19جون2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں