ذبح میں حرام مغز کاٹنااور گردن توڑنا

سوال:جانور ذبح کرتے وقت جانور کا حرام مغز یا گردن توڑ دی تو کیا جانور حرام ہو جاتا ہے؟

یوزر آئی ڈی:سہیل شریف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

ذبح شرعی کے لیے ضروری ہے کہ جانور کی چار رگیں (سانس والی،کھانے والی،دوخون والی)مکمل یا ان کا اکثر حصہ کٹ جائے اس سے زیادہ کاٹنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا گردن توڑ دینا مکروہ ہے البتہ جانور حلال ہی ہو گا کراہت اس فعل میں ہے کہ بلا وجہ جانور کو تکلیف دینا ہے ذبیحہ میں کوئی کراہت نہیں۔صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”اس طرح ذبح کرنا کہ چھری حرام مغز تک پہنچ جائے یا سر کٹ کر جدا ہو جائے، مکروہ ہے، مگر وہ ذبیحہ کھایا جائے گا، یعنی کراہت اس فعل میں ہے، نہ کہ ذبیحہ میں ۔ عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذبح کرنے میں اگر سر جدا ہو جائے ،تو اس سر کا کھانا مکروہ ہے، یہ کتب فقہ میں نظر سے نہیں گزرا، بلکہ فقہاء کا یہ ارشاد کہ ذبیحہ کھایا جائے گا، اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سر بھی کھایا جائے گا۔ ہر وہ فعل جس سے جانور کو بلا فائدہ تکلیف پہنچے، مکروہ ہے، مثلاً: جانور میں ابھی حیات باقی ہو، ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا، اس کے اعضاء کاٹنا یا ذبح سے پہلے اس کے سر کو کھینچنا کہ رگیں ظاہر ہو جائیں یا گردن کو توڑنا ،یوہیں جانور کو گردن کی طرف سے ذبح کرنا، مکروہ ہے، بلکہ اس کی بعض صورتوں میں جانور حرام ہو جائے گا۔“

(بھار شریعت، جلد3، حصہ 15، صفحہ315، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ

انتظار حسین مدنی کشمیری

21ذوالقعدۃ الحرام 1444ھ/11جون2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں