جانور میں شرکت کی جائز و ناجائز صورت

سوال:کسی کو جانور جیسے بکری وغیرہ خرید کر دی اب وہ اس کی پرورش کرے گا ضرورت پڑنے پر مالک جانور بیچے گا تو جتنے کا جانور بکے گا وہ قیمت دونوں میں آدھی آدھی تقسیم ہو گی ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں ؟اگر نہیں تو جواز کی کوئی صورت بتا دیں۔

یوزر آئی ڈی:احمد رضا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

پوچھی گئی صورت جائز نہیں ہے اس کی جائز صورت یہ ہے کہ جانور دینے والا ،اگلے کو جانور کا آدھا حصہ بیچ دے اس طرح جانور دونوں میں مشترک ہو جائے گا اور بیچنے پر قیمت آدھی آدھی دونوں میں تقسیم ہو جائے گی۔۔ صدرالشریعہ بدرالطریقہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”گائے، بھینس خرید کر دوسرے کو دیدتے ہیں کہ اسے کھلائے، پلائے، جو کچھ دودھ ہوگا، وہ دونوں میں نصف نصف تقسیم ہوگا،یہ اجارہ بھی فاسد ہے۔کُل دودھ مالک کا ہے اور دوسرے کو اس کے کام کی اجرتِ مثل ملے گی اور جوکچھ اپنے پاس سے کھلایا ہے،اس کی قیمت ملے گی اور گائے نے جوکچھ چراہے، اس کا کوئی معاوضہ نہیں اور دوسرے نے جوکچھ دودھ صرف کرلیا ہے، اتنا ہی دودھ مالک کو دے کہ دودھ مثلی چیز ہے۔‘‘

(بھارشریعت، جلد 3، حصہ 14،صفحہ150 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اس کے جواز کا طریقہ بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”اس کے جواز کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ گائے، بکری، مرغی وغیرہ میں آدھی دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالیں، اب چونکہ ان جانوروں میں شرکت ہو گئی، بچے بھی مشترک ہوں گے۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 2،حصہ 10،صفحہ 512،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ

انتظار حسین مدنی کشمیری

6ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/25جون2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں