بلیوں کی خرید و فروخت کا حکم

سوال:بلیوں کی خرید و فروخت کا کیا حکم ہے؟

یوزر آئی ڈی:پارٹی سپنٹ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

بلى پالنا اور اس کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے ۔ صحابیِ رسول حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے چھوٹی سی بلی پالی ہوئی تھی جسے وہ اپنے قمیص کی آستین میں اپنے ساتھ رکھتے تھے اسی لیے اُن کا نام ”ابو ہریرہ “یعنی بلی والے پڑ گیا ۔ ان کا اصل نام عَبْدُالرَّحْمٰن ہے اور ابوہریرہ ان کی کنیت ہے تو ان کے بلی پالنے سے بھی پتا چلا کہ بلی پالنا جائز ہے ۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:بَيْعُ السِّنَّوْرِ وَسِبَاعِ الْوَحْشِ وَالطَّيْرِ جَائِزٌ عِنْدَنَا مُعَلَّمًا كَانَ أَوْ لَمْ يَكُنْ كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ. ترجمہ:بلی اور وحشی جانوروں اور پرندوں کی خرید و فروخت جائز ہے ہمارے نزدیک چاہے وہ سکھائے گئے ہوں یا نہ سکھائے گئے ہوں ۔

(مجموعة من المؤلفين، الفتاوى الهندية،جلد3،صفحہ114،دار الفکر)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ

انتظار حسین مدنی کشمیری

28ذو الحجۃ الحرام 1444ھ/17جولائی 2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں