سوال:اولیاء کرام کے مزارات پر جا کر کہنا کہ فلاں چیز عطا کر دیں کیسا ہے؟
یوزر آئی ڈی:عاقب چوہدری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
اولیاء کرام سے ڈائریکٹ مدد مانگنا یا ان سے اپنی کسی جائز حاجت کا سوال کرنا بلکل جائز ہے شرعا اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حقیقی مددگار اور عطا کرنے والا اللہ رب العزت ہی ہے اس کے برگزیدہ بندے اس کی عطا سے مدد اور فریاد رسی فرماتے ہیں ۔اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:﴿ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوۡنَ ﴾ یعنی اے مسلمانو! تمہار ا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں۔(سورۃ المائدۃ،آیت 55)
تفسیر صاوی میں آیت﴿ وَلا تَدْعُ مَعَ اللَّہِ اِلہاً آخَرَ﴾کے تحت ہے: ”المراد بالدعاء العبادۃ وحینئذ فلیس فی الآیۃ دلیل علی ما زعمہ الخوارج من ان الطلب من الغیر حیا او میتا شرک فانہ جھل مرکب لان سوال الغیر من حیث اجراء اللہ النفع او الضرر علی یدہ قد یکون واجبا لانہ من التمسک بالاسباب ولا ینکر الاسباب الا جحود او جھول “ ترجمہ: آیت میں پکارنے سے مراد عبادت کرنا ہے، لہٰذا اس آیت میں ان خارجیوں کی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ غیر خدا سے خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ کچھ مانگنا شرک ہے ،خارجیوں کی یہ بکواس جہل مرکب ہے ،کیونکہ غیر خدا سے مانگنا اس طرح کہ رب ان کے ذریعے سے نفع و نقصان دے، کبھی واجب بھی ہوتا ہے کہ یہ طلب اسباب ہے اور اسباب کا انکا ر نہ کرے گا مگر منکر یا جاہل ۔
(تفسیر صاوی،جلد4،صفحہ1550،مطبوعہ لاھور)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتبہ
انتظار حسین مدنی کشمیری
27ذوالقعدۃ الحرام 1444ھ/17جون2023 ء