چار ماہ پر حمل میں جان پڑنا اور سائنسی تحقیق

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ شروع سے سنتے آر ہے ہیں کہ جب حمل چارماہ کا ہوتا ہے اس وقت اس میں جان پڑتی ہے۔جبکہ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ چھٹے ہفتے میں بچے کادل دھڑکنا شروع ہو جاتا ہے چنانچہ سائنسی اعتبار سے چھٹے ہفتے میں دل کی یہ کنڈیشن ہوتی ہے :

A pipe-shaped heart is formed and begins to beat.

دل اور اس کی حرکت الٹراسائونڈ میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔چھٹے ہفتے میں جنین کے درج ذیل اجزاء بننا شروع ہو جاتے ہیں:

eye spot upper jaw lower jaw arm bud

heart bulge tail leg bud

کیا بچے کا دل ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس میں جان چار ماہ سے قبل پڑ چکی ہوتی ہے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ چار ماہ کے بعد حمل ضائع کروانا ایسا ہے جیسے کسی جان کو قتل کرنا ہے ،یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ جان تو اس میں چار ماہ سے پہلے پڑھ چکی ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا جواب ارشاد فرمائیں۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

یہ بات کثیر مستند احادیث سے ثابت ہے کہ جب حمل چار ماہ کا ہو جاتا ہے تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔بخاری شریف کی بسند صحیح حدیث پاک میں ہے

’’عن زید بن وہب قال عبد اللہ حدثنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو الصادق المصدوق قال إن أحدکم یجمع خلقہ فی بطن أمہ أربعین یوما ثم یکون علقۃ مثل ذلک ثم یکون مضغۃ مثل ذلک ثم یبعث اللہ ملکا فیؤمر بأربع کلمات ویقال لہ اکتب عملہ ورزقہ وأجلہ وشقی أو سعید ثم ینفخ فیہ الروح‘‘

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ تمہارامادہ خلقت تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفہ کی شکل میں جمع رکھاجاتاہے ،پھر چالیس دن جماہواخون ہوتاہے، پھر چالیس دن گوشت کا لوتھڑاہوجاتا ہے ،پھر اللہ تعالیٰ فرشتہ کو بھیجتاہے اور اسے چارباتو ں کا حکم دیتاہے ،اس کاعمل ،روزی ،عمر،اس کے بدبخت یانیک بخت ہونے کے متعلق لکھنے کا،پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ (صحیح بخاری ،کتاب بدء الخلق،باب ذکرالملائکۃ،جلد01،صفحہ456، مکتبہ ،کراچی)

اس حدیث سے پتہ چلا کہ چارہ ماہ کے بعد بچے میں روح پھونکی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ تین اور حدیثیں ہیں جس میں چار ماہ سے قبل بچے کے اعضاء بننے کا ذکر ہے چنانچہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تینوں حدیثوں کو یوں نقل فرمایا ہے

’’ وفی أخری ” إذا مر بالنطفۃ ثنتان وأربعون لیلۃ بعث اللہ إلیہا ملکا فصورہا وخلق سمعہا وبصرہا وجلدہا ” وفی روایۃ حذیفۃ بن أسید ” أن النطفۃ تقع فی الرحم أربعین لیلۃ ثم یتسور علیہا الملک ” وفی أخری ” أن ملکا وکل بالرحم إذا أراد اللہ أن یخلق شیئا یأذن لہ لبضع وأربعین لیلۃ‘‘

ترجمہ:ایک حدیث میں ہے کہ جب نطفے کو بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ عزوجل فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس کے کان،آنکھ اور جسم بناتا ہے۔ایک اور حدیث حضرت حذیفہ بن اُسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب نطفے کو رحم میں چالیس راتیں گزر جاتی ہیں تواس کی طرف فرشتہ تخلیق کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ جب اللہ عزوجل تخلیق کا ارادہ کرتا ہے تو ایک فرشتہ رحم میں پچاس اور چالیس راتوں کے درمیان بھیجتا ہے۔ (عمدۃ القاری ،کتاب الحیض ،باب مخلقۃ وغیر مخلقۃ،جلد3،صفحہ293،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

ان تمام حدیثوں کی تطبیق یوں ہے کہ فرشتہ ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار آتا ہے۔ چار ماہ کے بعد فرشتہ روح پھونکنے آتا ہے لیکن چار ماہ سے قبل چالیس دنوں بعد فرشتہ اجزا کومرتب کرنے کے لئے بھی آتا ہے۔عمدۃ القاری میں ہے

’’فإن قلت کیف یکون الشیء الواحد نطفۃ علقۃ مضغۃ ؟قلت ہذہ الأخبار الثلاثۃ تصدر من الملک فی أوقات متعددۃ لا فی وقت واحد‘‘

ترجمہ: اگر تویہ کہے کہ کیسے ایک نطفہ علقہ،مضغہ ہوگیا؟ تو میں کہوں گا کہ یہ تینوں افعال فرشتے سے متعدد اوقات میں صادر ہوئے ہیں نہ کہ ایک وقت میں۔(عمدۃ القاری ،کتاب الحیض ،باب مخلقۃ وغیر مخلقۃ،جلد3،صفحہ294،دار إحیاء التراث العربی ،بیروت)

تو چار ماہ بعد بچے کے اجزا پورے ہوجاتے ہیں،لیکن ان اجزا کی بنیاد چالیس دن بعد رکھی جاتی ہے ۔فتح الباری میں ہے

’’وقال بعضہم یحتمل أن یکون الملک عند انتہاء الأربعین الأولی یقسم النطفۃ إذا صارت علقۃ إلی أجزاء بحسب الأعضاء أو یقسم بعضہا إلی جلد وبعضہا إلی لحم وبعضہا إلی عظم فیقدر ذلک کلہ قبل وجودہ ثم یتہیأ ذلک فی آخر الأربعین الثانیۃ ویتکامل فی الأربعین الثالثۃ‘‘

ترجمہ:بعض علماء نے فرمایا کہ یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ چالیس دنوں کے بعد جب نطفہ علقہ بن جاتا ہے فرشتہ اس کے اجزاء تقسیم کرتا ہے، بعض اعضاء کو جلد کی لئے ،بعض کو گوشت کے لئے اور بعض کو ہڈیوں کے لئے تقسیم کرتا ہے اور یہ سب تقسیم ان اجزاء کے بننے سے قبل کی جاتی ہے۔ پھر اسی تقسیم پراگلے چالیس دنوں میں اجزاء تیار ہوتے ہیں اور پھر چار ماہ پورے ہونے پر یہ اجزاء مکمل ہو جاتے ہیں۔ (فتح الباری لابن حجر،کتاب
القدر،جلد11،صفحہ485،دار المعرفۃ ،بیروت)

علامہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ جامع العلوم والحکم میں فرماتے ہیں

’’وظاہر ہذا الحدیث یدل علی أن تصویر الجنین وخلق سمعہ وبصرہ وجلدہ ولحمہ وعظامہ یکون فی أول الأربعین ‘‘

ترجمہ: ا س حدیث کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بچے کی تصویر،اس کے کان،آنکھ،جلد،گوشت،ہڈیاں چالیس دن بعد بننا شروع ہوجاتی ہیں۔(جامع العلوم والحکم،الحدیث الرابع إن أحدکم یجمع خلقہ فی بطن أمہ أربعین یوما نطفۃ،جلد1،صفحہ153،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)

سائنس کا یہ کہنا کہ چھٹے ہفتے میں دل بن جاتا ہے منافی حدیث نہیںکہ احادیث اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ چالیس دن بعد اجزا کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔علمائے کرام کی اکثریت اس طرف ہے کہ اجزا میں سب سے پہلے دل بنتا ہے چنانچہ فتح الباری میں ہے

’’واختلف فی أول ما یتشکل من أعضاء الجنین فقیل قلبہ لأنہ الأساس وہو معدن الحرکۃ الغریزیۃ‘‘

ترجمہ: اس میں علماء مختلف ہیں کہ جنین میں سب سے پہلے کون سی شکل بنتی ہے تو کہا گیا دل بنتا ہے کہ وہ حرکت غزیزیہ کی اصل ہے۔(فتح الباری لابن حجر،کتاب القدر،جلد11،صفحہ482،دار المعرفۃ ،بیروت)

باقی چھٹے ہفتے دل کا دھڑکنا اس بات کو ثابت نہیں کرتا کہ بچے میں روح داخل ہوچکی ہے بلکہ چار ماہ سے قبل بچے کا بڑھناپودوں کے بڑھنے کی مثل ہوتا ہے اور دل کی دھڑکن غیر ارادی طور پر تعلق نفس کے سبب ہے۔ فتح الباری میں ہے

’’لأنہ حینئذ بمنزلۃ النبات وإنما یکون لہ قوۃ الحس والإرادۃ عند تعلق النفس بہ‘‘

ترجمہ:جنین اس حالت میں بمنزلہ نبات ہوتا ہے اوراس کی قوت حس اور ارادت تعلق نفس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ (فتح الباری لابن حجر،کتاب القدر،جلد11،صفحہ482،دار المعرفۃ ،بیروت)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے

’’وأفاض ابن القیم فی الاستدلال بہذا الحدیث ثم قال إن الجنین قبل نفخ الروح کان فیہ حرکۃ نمو واغتذاء کالنبات ، ولم تکن حرکۃ نموہ واغتذائہ بالإرادۃ ، فلما نفخت فیہ الروح انضمت حرکۃ حسیتہ وإرادتہ إلی حرکۃ نموہ واغتذائہ‘‘ (الموسوعۃ الفقہیہ
الکویتیہ،جلد18،صفحہ265،دارالسلاسل ،الکویت)

المختصر یہ کہ جان چار ماہ بعد ہی ڈلتی ہے اور چار ماہ سے قبل دل اور دیگر اجزا بننا شروع ہو جاتے ہیں جو چار ماہ بعد مکمل بن جاتے ہیں۔یہی قرآن وحدیث اورطب سے ثابت ہے۔ مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں:

’’اطباء کا اس پر اتفاق ہے کہ چارمہینے میں اعضاء مکمل ہوجاتے
ہیں۔۔۔علامہ نووی نے فرمایا:’’اخیر کی اربعین پوری ہوتے ہوئے اس کی خلقت تام ہوجاتی ہے سارے اعضاء بن چکتے ہیںشکل وصورت حلیہ سب درست ہوچکتاہے۔‘‘ (نزہۃ القاری شرح صحیح بخاری ،جلد04،صفحہ 304،فرید بک
سٹال،لاہور )

جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ چار ماہ بعد جنین میںجاندار والی حرکات پیدا ہوجاتی ہیں۔چند انٹرنیٹ میں موجود سائنسی انکشافات پیش خدمت ہیں:۔

ایک جگہ ہے :

Science has verified that after about 120 days, the foetus can think; express emotions, as well as a few other things.

(http://islam4parents.com/2008/07/teaching-your-foetus/)

ایک جگہ ہے:

The Ruh(soul)enters the foetus at 120 days (4 months) from conception

(http://www.my-journal.com/jrn/md__1/jrn__18775/dt__1297411200)

مشہور ا نٹرنیٹ سائیٹ ویکپیڈیا میں ہے:

Week 16 to 25: A woman pregnant for the first time typically feels fetal movements at about 21 weeks, whereas a woman who has already given birth at least two times will typically feel movements by 20 weeks. By the end of the fifth month, the fetus is about 20 cm (8 inches).

(http://en.wikipedia.org/wiki/Human_fetal_development]Week_16_to_25)

ایک سائیٹ پر 18ہفتوں کے بعد جو بچے کی حرکت ہوتی ہے اس کے متعلق ہے :

Tiny air sacs called alveoli begin to form in lungs and the vocal chords are formed. Baby goes through the motions of crying but without air doesn’t make a sound; yet.

Your baby may have the same awake and sleep patterns of a newborn. Baby will have a favorite position for sleep and recognizable active and rest periods

(http://baby2see.com/development/week18.html)

دوسری جگہ ایک سو بیس دنوں کے بعد ہے:

Her chest moves up and down to mimic breathing. Her blood vessels are visible through her thin skin, and her ears are now in their final position, although they’re still standing out from her head a bit.

(http://www.babycentre.co.uk/pregnancy/fetaldevelopment/18weeks/)

ثابت ہوا کہ جدید سائنس احادیث کے خلاف نہیں بلکہ موافق ہی ہے۔لہذا حمل میں جان چار ماہ بعد ہی پڑتی ہے اور چار ماہ سے قبل وہ پودے کی طرح بڑھتا ہے۔چار ماہ سے قبل بھی بلاوجہ شرعی بچہ ضائع کروانا جائز نہیں جیسے زیادہ بچے نہ چاہتے ہوئے حمل ضائع کروانا وغیرہ لیکن اگر کسی شرعی عذر کے سبب چار ماہ سے قبل ضائع کروایا جائے جیسے بچے میں ڈاکٹروں کے مطابق خطرناک قسم کی بیماری کا قوی اندیشہ ہو جیسے تھیلیسیمیا تو حمل ضائع کروانا جائز ہے کہ یہ قتل کے مترادف نہیں۔

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

29ذوالحجہ1444ھ18جولائی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں