منت مانی کہ فلاں کام ہو جانے پہ محفل کرواؤں گا

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ کسی اسلامی بھائی نے منت مانی کہ فلاں کام ہو جانے پہ محفل کرواؤں گا، مراد پُوری ہونے کی صورت میں اُتنی ہی مالیت کسی غریب کو دینا یا مدرسے کو دینا یا مسجد کی تعمیر میں دے دینا کیسا ہے ؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب

اگر کسی نے منت مانی کہ فلاں کام ہو جانے پہ محفل کرواؤں گا تو مراد پُوری ہونے کی صورت میں اُتنی ہی مالیت کسی غریب کو دینا یا مدرسے کو دینا یا مسجد کی تعمیر میں دینا جائز ہے کیونکہ یہ منتِ واجبہ نہیں، اور جو منت واجبہ نہ ہو اسے پورا کرنا لازم نہیں ہوتا، مگر بہتر ہے کہ جو منت مانی ہے اسے ادا کر دے۔

بدا الصنائع اور در مختار شرح تنویر الابصار میں ہے: “ (ولم يلزم) الناذر (ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض۔۔۔۔ الخ)۔“

ترجمہ: اگر منت ماننے والے نے ایسی منت مانی جو واجب کی جنس سے نہ ہو تو وہ اس پر لازم نہیں ہو گی، جیسے مریض کے عیادت کرنے کی منت ماننا۔۔۔.. الخ. ( الدرالمختار شرح تنویر الابصار، صفحہ 284، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).

امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ” اگر یوں ہو کہ طالب ممبری کہے: میں ﷲ کے لئے منت مانتا ہوں کہ اگر ممبر ہوگیا، تو دو ہزار روپے فلاں مسجد کی تعمیر میں دوں گا، تو یہ بھی اس کے اختیار پر رہے گا کہ تعمیرِ مسجد کی نذر صحیح ولازم نہیں۔ “ ( فتاویٰ رضویہ، جلد 16، صفحہ 478، رضا فاونڈیشن، لاہور)۔

بہار شریعت میں ہے: “ مسجد میں چراغ جلانے یا طاق بھرنے یا فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھانے یا گیارھویں کی نیاز دِلانے یا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا توشہ یا شاہ عبدالحق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا توشہ کرنے یا حضرت جلال بخاری کا کونڈا کرنے یا محرم کی نیاز یا شربت یا سبیل لگانے یا میلاد شریف کرنے کی منّت مانی تویہ شرعی منّت نہیں مگر یہ کام منع نہیں ہیں کرے تو اچھا ہے۔ “ ( بہارِ شریعت، جلد 02، حصہ 09، صفحہ 316، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ).

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

سگِ عطار ابو احمد محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ

نظرِ ثانی: ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ

( مورخہ 24 شوال المکرم 1444ھ بمطابق 15 مئی 2023ء بروز پیر )۔

اپنا تبصرہ بھیجیں