کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم اپنے صدقہ اور خیرات کسی غیر مسلم کو دے سکتے ہیں جس کو بہت ضرورت ہو ؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
صورتِ مسئولہ میں اپنی زکاۃ غیر مسلم (چاہے ذمی ہو یا حربی) کو دینا جائز نہیں ہے کہ اس کا مصرف مسلمان ہیں ، اور بقیہ صدقاتِ واجبہ ونافلہ ذمی(وہ کافر جومسلمانوں کے ملک میں ٹیکس دے کر رہتا ہو) کافر کو دے سکتے ہیں لیکن مسلمان فقراء کو دینا زیادہ محبوب ہے، جبکہ حربی کافر کو صدقاتِ واجبہ و نافلہ میں سے کچھ نہیں دے سکتے اگرچہ وہ بادشاہِ اسلام سے امان لے کر آیا ہو۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے کافر حربی ہیں لہذا ان کو کسی قسم کا صدقہ نہیں دے سکتے ۔ ہاں بغیر زکوۃ و صدقہ کے ویسے ہی ایسے کافر کی مدد کرنا جس میں کوئی مصلحت ہو اور اس کے مسلمان ہونے کی امید ہو تو اسے ہدیہ دینا جائز ہے ۔
در مختار میں ہے:
“( لا) تدفع( الی ذمی) لحدیث معاذ (وجاز) دفع (غيرها و غیر العشر) ۔۔۔(إليه) أي الذمي ولو واجبا كنذر وكفارة وفطرۃ ،،،،وأما الحربي ولو مستأمنا فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا“
ترجمہ : ذمی کافر کو (زکاۃ) نہیں دی جائے گی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث کی وجہ سے ۔اور اسکے اور عشر کے علاوہ (صدقات) اسے دینا جائز ہے ۔یعنی ذمی کو اگرچہ واجب ہوں جیسے نذر ، کفارہ اور فطرہ ۔اور بہر حال حربی کافر کیلئے تمام صدقات بالاتفاق ناجائز ہیں اگرچہ وہ (بادشاہِ اسلام سے)امان لے کر آیا ہو ۔ ( در مختار مع حاشیہ شامی ، باب مصرف الزکاۃ و العشر ، جلد 2 ، صفحہ 351،352، دار الکتب العلمیہ بیروت )
بحر الرائق میں ہے:
” صح دفع غیر الزکوٰۃ الی الذمی لقولہ تعالٰی لاینھٰکم اﷲ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین الاٰیۃ وقید بالذمی لان جمیع الصدقات فرضا کانت اوواجبۃ اوتطوعا لاتجوز للحربی اتفاقا کما فی غایۃ البیان لقولہ تعالٰی ینھٰکم اﷲ عن الذین قاتلوکم فی الدین واطلقہ فشمل المستامن وقد صرح بہ فی النہایۃ“
ترجمہ :زکوٰۃ کے سوا اور صدقات ذمی کو دے سکتے ہیں، اللہ عزوجل فرماتاہے: تمھیں اللہ ان سے منع نہیں فرماتا جو دین میں تم سے نہ لڑیں، ذمی کی قید اس لئے لگائی کہ حربی کےلئے جملہ صدقات حرام ہیں، فرض ہوں یا واجب یا نفل جیسا کہ غایۃ البیان میں ہے۔ اس لئے کہ اللہ عزوجل فرماتاہے: اللہ تمھیں ان سے منع فرماتاہے جو دین میں تم سے لڑیں، حربی کو مطلق رکھا تومستامن کو بھی شامل ہوا جو سلطان اسلام سے پناہ لے کر دارالاسلام میں آیا اسے بھی کسی قسم کا صدقہ دینا جائز نہیں۔ اور نہایہ میں اس کی صاف تصریح ہے۔ ( البحرالرائق ، باب المصرف ،جلد 2 ، صفحہ 242،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)
فتاوی قاضی خان میں ہے :
”ولا یجوز صرف الزکاۃ الی الکافر حربیاً او ذمیاً “
ترجمہ : یعنی کافر چاہے ذمی ہو یا حربی اسے زکاۃ دینا جائز نہیں ہے ۔ (فتاوی قاضی خان ، جلد 1، صفحہ 267، دار الفکر بیروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
” و أما اھل الذمۃ فلا یجوز صرف الزکاۃ الیھم بالاتفاق واختلفوا في صدقة الفطر والنذور والكفارات قال أبو حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى يجوز إلا أن فقراء المسلمين أحب إلينا كذا في شرح الطحاوي. و اما الحربی المستامن فلا یجوز دفع الزکاۃ و الصدقۃ الواجبۃ الیہ بالاجماع ۔”
ترجمہ : یعنی ذمی کافر تو انہیں بالاتفاق زکاۃ دینا جائز نہیں اور صدقہ فطر، منتیں اور کفارات میں علماء کرام نے اختلاف کیا ہے امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ فرماتے جائز ہے مگر مسلمان فقراء کو دینا ہمیں زیادہ محبوب ہے ایسے ہی شرح طحاوی میں ہے اور بہر حال حربی مستامن(یعنی امان لے کر آنے والا) تو اسے زکاۃ اور صدقات واجبہ بالاتفاق دینا جائز نہیں ہے ۔ (فتاوی عالمگیری ،الباب السابع فی المصرف ،جلد 1 ، صفحہ 188 ، دار الکتب العلمیہ بیروت)
بہار شریعت میں ہے:
” ہندوستان اگرچہ دارالاسلام ہے مگریہاں کے کفّار ذمّی نہیں ، انھیں صدقات نفل مثلاً ہدیہ وغیرہ دینا بھی ناجائز ہے۔” ( بہار شریعت ،جلد 1 ،حصہ پنجم ، صفحہ 937 ،مکتبۃ المدینہ کراچی)
فتاوی اہلسنت میں ہے :
” غیر مسلم کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے اگر ان کو زکاۃ دی جائے تو ادا ہی نہیں ہوتی کہ زکاۃ مصرف مسلمان ہیں ۔” (فتاوی اہلسنت ، کتاب الزکاۃ ،صفحہ 440، مکتبۃ المدینہ کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے :
” بمصلحت شرعی اسے ہدیہ دینا جس میں کسی رسم کفر کا اعزاز نہ ہو، اس کا ہدیہ قبول کرنا جس سے دین پر اعتراض نہ ہو حتی کہ کتابیہ سے نکاح کرنا بھی فی نفسہٖ حلال ہے۔” (فتاوی رضویہ ، کتاب السیر ،جلد 14 ،صفحہ 420،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ اعلم باالصواب
کتبہ
ارشاد حسین عفی عنہ
9/06/2023