ایک فلم میں بولے جانے والے کفریہ ڈائیلاگ

سوال:کوئی کسی کو یہ کہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے رزق کا وعدہ کیا ہے۔‘‘ دوسرا جواب میں یہ کہے’’ تو ضرور پھر فرشتوں کے پاس ہمارا پتہ غلط لکھا ہوگا،کیونکہ یہاں تو رزق نہیں پہنچ رہا۔‘‘یہ کہنا کیسا ہے؟

جواب:یہ کہنا کفر ہے۔اس میں اللہ عزوجل کے فرشتوں کو غلطی کرنے والا کہاگیا ہے۔اللہ عزوجل کے فرشتے غلطی کرنے سے پاک ہیں ، انہیں جو حکم دیا جائے اسے بروقت صحیح کرتے ہیں۔قرآن پاک میں اللہ عزوجل فرشتوں کے متعلق فرماتا ہے

{ لَا یَعْصُوْنَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا
یُؤْمَرُوْنَ }ترجمہ کنزالایمان: جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔ (سورۃ التحریم،سورۃ66،آیت6)

فرشتے پر اس طرح کا عیب لگانا کفر ہے چنانچہ فتاوٰی التاتارخانیہ میں ہے

’’رجل عاب ملکا من الملائکۃ کفر‘‘

ترجمہ: جو اللہ عزوجل کے کسی فرشتے پر عیب لگائے تو اس نے کفر کیا۔ (التاتارخانیہ،فصل فیما یعود الی الملائکۃ علیہم
السلام،جلد5،صفحہ332،قدیمی کتب خانہ ،کراچی)

اللہ عزوجل نے رزق پہچانے کے اسباب پیدا کئے ہیں۔ان اسباب میں فرشتوں کی جو ڈیوٹی ہوتی ہے وہ پوری کرتے ہیں ،جیسے بارش رزق اگانے کا سبب ہے ۔فرشتے اس بارش کو زمین کے معین حصے تک پہچانے میں سبب ہیں ۔تفسیر خازن میں ہے

’’لا تنزل من السماء قطرۃ مطر إلا ومعہا ملک یسوقہا إلی حیث یشاء اللہ تعالی‘‘

ترجمہ:بارش کو کوئی قطرہ نہیں ہوتا مگر اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہوتا ہے جو اس قطرے کو وہاں رکھتا ہے جہاں اللہ چاہتا ہے۔ (لباب التأویل فی معانی التنزیل،جلد3،صفحہ52،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

سوال:رزق دینے کی ذمہ داری رب تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے ۔کسی کا یہ کہنا کیسا ہے’’ دنیا میں جو اتنے لوگ بھوک سے مررہے ہیں وہ اس لئے مررہے ہیں کہ خدا اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا ہے؟‘‘

جواب:یہ جملہ کفر ہے کہ اس میں اللہ عزوجل کو ذمہ دری نہ پوری کرنے والا کہا گیا ہے۔اللہ عزوجل نے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے اور وہ اسے پورا کرتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے

{وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الأَرْضِ إِلاَّ عَلَی اللّہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِی کِتَابٍ مُّبِیْنٍ }

ترجمہ کنزالایمان:اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہء کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے۔ (سورۃ ہود،سورۃ11،آیت6)

اس آیت کی تفسیر میں امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

’’روی أن موسی علیہ السلام عند نزول الوحی إلیہ تعلق قلبہ بأحوال أہلہ، فأمرہ اللہ تعالی أن یضرب بعصاہ علی صخرۃ فانشقت وخرجت صخرۃ ثانیۃ. ثم ضرب بعصاہ علیہا فانشقت وخرجت صخرۃ ثالثۃ، ثم ضربہا بعصاہ فانشقت فخرجت منہا دودۃ کالذرۃ وفی فمہا شیء یجری مجری الغذاء لہا، ورفع الحجاب عن سمع موسی علیہ السلام فسمع الدودۃ تقول: سبحان من یرانی، ویسمع کلامی، ویعرف مکانی، ویذکرنی ولا ینسانی‘‘

ترجمہ:مروی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام پر جب وحی نازل ہوئی تو آپ اپنے گھر والوں کے لئے رزق کی فکر کیا کرتے تھے۔تو رب تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو پتھر پر ماریں۔آپ نے جب مارا تو اس پتھر میں سے ایک اور پتھر نکلا،پھر آپ نے اس دوسرے پتھر پر عصا مارا تو ایک تیسرا پتھر نکلا۔ پھر جب آپ نے اس تیسرے پتھر پر عصا مارا تو ایک کیڑا نکلا اور اس کے منہ میں کھانے والی چیز تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلا م کو کیڑے کی زبان سننے کی طاقت عطا کی گئی ۔ کیڑے نے کہا:پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھتی ہے اور میرا کلام سنتی ہے اور میرے جگہ کو جانتی ہے اور مجھے یاد رکھتی ہے بھولتی نہیں۔ (تفسیر کبیر، فی التفسیر،سورۃ ہود،سورۃ11،آیت6)

اللہ عزوجل کو اپنی ذمہ داری پوری نہ کرنے والا کہنا اس ذات پر نقص لگانا ہے جو صریح کفر ہے۔فتاوٰی ہندیہ میں ہے

’’یکفر اذا وصف اللہ تعالیٰ بما لایلیق بہ او سخر باسم من اسمائہ او بامر من اوامر ہ او انکر وعدہ وعیدہ او جعل لہ شریکا او ولدا او زوجہ او نسبہ الی الجھل او العجز او النقص ‘‘

ترجمہ:جس نے اللہ تعالیٰ کو ایسے وصف سے موصوف کیا جو اس کی شان کے لائق نہیں یا اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام کا مذاق اڑایا یا اس کے احکام میں سے کسی حکم کا مذاق اڑایا یا اس کے وعدے یا وعید کا انکار کیا یا اس کا کسی کو شریک ٹھہرایا یا کسی کو اس کا بیٹا یا بیوی کہایا اللہ عزوجل کی طرف جہالت ، عجز ، نقص کی نسبت کی اس کی تکفیر کی جائے گی۔ (فتاوٰی ہندیہ،کتاب السیر،فی احکام المرتدین ،ممایتعلق بذات اللہ تعالیٰ ۔۔،جلد2،صفحہ257،مکتبہ ،کوئٹہ)

رزق رب تعالیٰ کے ذمے ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی بھوک سے نہیں مرے گا۔ بلکہ اس کا مطلب ہے انسان کوجتنا بھی رزق ملے گا وہ رب تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔اس کا بھوکا مرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا رزق ختم ہوگیا چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں درمنثور میں ہے

’’وأخرج ابن جریر وابن المنذر وابن أبی حاتم وأبو الشیخ عن مجاہد رضی اللہ عنہ فی قولہ {وما من دابۃ فی الأرض إلا علی اللہ رزقہا} یعنی ما جاء ہا من رزق فمن اللہ وربما لم یرزقہا حتی تموت جوعا ولکن ما کان لہا من رزق فمن اللہ‘‘

ترجمہ:ابن جریر ،ابن منذر ابوحاتم اور ابو شیخ رحمہم اللہ نے حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ اللہ عزوجل اس فرمان:اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہء کرم پر نہ ہو ۔اس کا مطلب ہے ہے کہ اسے زندگی میں جو رزق ملے گا وہ رب تعالیٰ کی طرف سے ہوگا۔کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بندہ بھوکا مرجاتا ہے۔لیکن اس نے جو رزق زندگی میں اس کے لئے تھا وہ رب تعالیٰ کی طرف سے تھا۔ (الدرالمنثور، فی التفسیر،سورۃ ہود،سورۃ11،آیت6)

اپنا لکھا ہوا رزق پورا کئے بغیر انسان نہیں مرے گا۔حدیث پاک ہے

’’عن ابن مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وان روح القدس نفث فی روعی ان نفسالن تموت حتی تستکمل رزقھاألا فاتقوا اللہ وأجملوا فی الطلب ولا یحملنکم استبطاء الرزق أن تطلبوہ بمعاصی اللہ فإنہ لا یدرک ما عند اللہ إلا بطاعتہ‘‘

ترجمہ:ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:بیشک روح القدس علیہ السلام نے میرے باطن میں وحی کی کہ کوئی جاندار نہ مرے گا جب تک اپنارزق پورا نہ کرے۔خیال رکھو کہ اللہ سے ڈرو تلاش رزق میں درمیانی راہ اختیار کرو ا ور رزق میں دیر لگنا تم کو اس پر نہ اکسائے کہ تم اﷲ کی نافرمانی سے رزق ڈھونڈ کیونکہ اللہ کے پاس کی چیزیں اس کی فرماں برداری سے ہی حاصل کی جاسکتی ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح ،باب التوکل والصبر،جلد3،صفحہ149،المکتب الإسلامی ،بیروت)

رزق کی کمی و زیادتی کا اختیار رب تعالیٰ کو ہے۔قرآن پاک میں ہے

{اَللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَائُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْء ٍ عَلِیْمٌ}

ترجمہ کنزالایمان:اللہ کشادہ کرتا ہے رزق اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے جس کے لیے چاہے، بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (سورۃ العنکبوت،سورۃ29،آیت62)

رزق کی یہ کمی و زیادتی انسانوں کی بہتر ی کے لئے ہے۔تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں کہ دولت آنے کے بعد مسلمان اللہ عزوجل کا نافرمان بن گیا۔اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے

{وَلَوْ بَسَطَ اللَّہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِی الْأَرْضِ وَلَکِن یُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَاء إِنَّہُ بِعِبَادِہِ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌ }

ترجمہ کنزالایمان:اور اگر اللہ اپنے سب بندوں کا رزق وسیع کردیتا تو ضرور زمین میں فساد پھیلاتے لیکن وہ اندازہ سے اتارتا ہے جتنا چاہے، بیشک وہ بندوں سے خبردار ہے انہیں دیکھتا ہے۔ (سورۃ الشوریٰ،سورۃ42،آیت27)

بندے کی یہ شان نہیں کہ وہ رب تعالیٰ کی کڑوڑوں نعمتیں بھول کر ایک نعمت نہ ملنے پر رب تعالیٰ پر اعتراض کرے۔ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ ہر حالت میں رب تعالیٰ کا شکر کریں۔قرآن پاک میں اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے

{إِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلَا یَرْضَی لِعِبَادِہِ الْکُفْرَ وَإِن تَشْکُرُوا یَرْضَہُ لَکُمْ }

ترجمہ کنزالایمان:اگر تم ناشکری کرو تو بیشک اللہ بے نیاز ہے تم سے اور اپنے بندوں کی ناشکری اسے پسند نہیں اور اگر شکر کرو تو اسے تمہارے لیے پسند فرماتا ہے ۔ (سورۃ الزمر، سورۃ 39،آیت7)

سوال:کسی کا یہ کہنا کیسا ہے’’ کاش میں خدا ہوتی تو ہر مرد سے ایک بچہ جنواتی تاکہ پتہ چلتا آپ لوگوں کو۔‘‘

جواب: اس جملے میں دو کفر ہیں ۔ ایک خدا بننے کی تمنا کرنا کہ یہ کفر ہے۔ خدا تو کیا اگر کوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبی ہونے کی تمنا کرے تو کافر ہے۔اعلام بقواطعِ الاسلام میں ہے

’’ومن ذٰلک (ای المکفرات) ایضا تکذیب نبی او نسبۃ تعمد کذب الیہ او محاربتہ اوسبہ او الاستخفاف ومثل ذٰلک کما قال الحلیمی مالو تمنی فی زمن نبینا او بعدہ ان لو کان نبیا فیکفر فی جمیع ذٰلک والظاھر انہ لافرق بین تمنی ذٰلک باللسان او القلب ‘‘

ترجمہ:انہیں باتوں میں جو معاذ اﷲآدمی کو کافر کر دیتی ہیں کسی نبی کو جھٹلانا یا اس کی طرف قصداً جھوٹ بولنے کی نسبت کرنا یا نبی سے لڑنا یا اسے بُرا کہنا اس کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہونا اور بتصریح امام حلیمی انہیں کفریات کی مثل ہے ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانے میں یا حضور کے بعد کسی شخص کا تمنا کرنا کہ کسی طرح سے نبی ہوجاتا، ان صورتوں میں کافر ہوجائے گا اور ظاہر یہ ہے کہ اس میں کچھ فرق نہیں وہ تمنا زبان سے یا صرف دل میں کرے۔ ( الاعلام بقواطع الاسلام مع سبل النجاۃ، صفحہ352،مکتبۃ الحقیقۃ، استنبول ترکی)

دوسرا اس جملہ میں کفر رب تعالیٰ کے نظام پر اعتراض کرنا ہے کہ اللہ عزوجل نے بچہ پیدا کرنے کی ذمہ داری عورت کی لگائی ہے اور اس بچے کو پالنے کی ذمہ داری مرد پر لگائی ہے۔اس پر اعتراض کرنا کفر ہے۔رب تعالیٰ کے کسی بھی فعل پر اعتراض کرنا کفر ہے۔ شرح فقہ اکبر میں ہے

’’قال:لاادری لم خلق اللہ فلانا کفر‘‘

ترجمہ:جس نے بطور اعتراض کے کہاکہ اللہ عزوجل نے فلاںکوکیوں پیداکردیا،یہ کہناکفر ہے ۔ (شرح فقہ اکبر ،صفحہ319،مکتبۃ حقانیہ،پشاور)

سوال:کوئی ہیجڑے بچے کو قتل کرے اور دوسرا کہے کہ ’’اس نے خدا کی غلطی کو ٹھیک کیا۔ خدا تو ان سے بہت خوش ہوگا۔‘‘

جواب:اس جملے میں دو کفر ہیں۔ایک قتل جیسے فعل کو جائز اور خدا کی رضا کہنا اور دوسرا اللہ عزوجل کے غلطی ثابت کرنا ۔ اللہ عزوجل بھول وخطا سے پاک ہے ،اس ذات کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے۔ قرآن پاک میں ہے

{ لَّا یَضِلُّ رَبِّی وَلَا یَنْسَی }

ترجمہ کنز الایمان: میرا رب نہ بہکے نہ بھولے۔ (سورۃ طہ،سورت20،آیت52)

کسی کے ہاں بیٹی یاہیجڑا پیدا ہونا ہرگز رب تعالیٰ کی غلطی نہیں ہے ۔قرآن پاک میں ہے

{لِلَّٰہِ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَائُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَائُ إِنَاثًا وَیَہَبُ لِمَن یَّشَائُ الذُّکُوْرَ O أَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَإِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَن یَّشَائُ عَقِیْمًا إِنَّہُ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ}

ترجمہ کنزالایمان:اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ،پیدا کرتا ہے جو چاہے ،جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔( سور ۃ الشوریٰ، سورت42،آیت49،50)

کسی مخلوق کو دیکھ کر رب تعالیٰ پر اعتراض کرنا کفرہے ۔فتاوٰی عالمگیری میں ہے

’’رجل رأی حیوانا قبیحا، فقال: بیش کارنماندہ است خرائی کہ جنین آفریدہ کفر‘‘

ترجمہ:کسی نے ایک حیوان قبیح کو دیکھ کر کہا :اے خدا !کوئی اور کام نہیں رہ گیا تھا جو تو نے اس کو پیدا کردیا تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔ (فتاوٰی عالمگیری ،کتاب السیر،جلد2،صفحہ262،دارالفکر،بیروت)

سوال:کسی کا یہ کہنا کیسا ہے کہ ’’سارا پاکستان اللہ کو پریشان کررہا ہے اور سارے ہندوستان نے بھگوان کو مصیبت ڈالی ہوئی ہے؟‘‘

جواب:پریشان ہونا بندے کا وصف ہے رب تعالیٰ اس سے پاک ہے۔ رب تعالیٰ کے پریشان ہونے کاعقیدہ رکھنا کفر ہے۔ مجمع الانہر میں ہے

’’ومن وصف اللہ بما لا یلیق بہ۔۔۔یکفر‘‘

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے متعلق ایسی بات بیان کرناجواس کے شایان شان نہ ہوکفرہے۔ (مجمع الانہرفی شرح ملتقی الابحر،فصل فی کیفیۃ
القسمۃ،جلد02،صفحہ504،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

پھر اس جملے میں بھگوان کے وجود کی طرف اشارہ ہے جو کہ کفر ہے۔

سوال:کوئی کہے کہ ’’اللہ عزوجل کے رسول کا یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ قیامت کے روز اسکی امت سب سے بڑی ہونی چاہئے؟‘‘دوسرا کہے’’ رحم کرو!اتنے بڑے پیغمبر ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ ضرور کہاہوگا کہ میری امت بڑی ہو لیکن عزت میں ،رتبہ میں،ترقی میں ،وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چاہے گدھے ہوں لیکن سب سے زیادہ، چاہے فاقے مررہے ہوں سب سے زیادہ۔‘‘

جواب: یہ حدیث پاک کے مفہوم کی صریح تحریف کی گئی ہے جو سخت حرام ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحت کے ساتھ فرمایا

’’تزوجوا الودود الولود فإنی مکاثر بکم الأمم‘‘

ترجمہ:زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت کے ساتھ نکاح کرو کہ میں کثرت امت پر فخر کروں۔ (سنن أبی داود،کتاب النکاح ،باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء ،جلد2،صفحہ220،المکتبۃ العصریۃ، بیروت)

واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــہ

ابواحمد مفتی محمد انس رضا قادری

22 نومبر 2011ء

اپنا تبصرہ بھیجیں