انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والا نکاح اور طلاق

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ اگر انٹرنیٹ کے ذریعے یوں نکاح ہو کہ لڑکا باہر کے ملک اور لڑکی پاکستان میں اقامت پذیر تھی اور نکاح کا عقد کچھ یوں ہوا کہ دونوں کے والدین ایک ہی گھر میں جمع تھے اور سب اس نکاح پر راضی تھے۔ مولوی صاحب نے موبائل پر ہی لڑکے سے پوچھا کہ ” فلاں بنت فلاں 5000 روپے حق مہر کے عوض آپ کو قبول ہے؟“ تو لڑکے نے جواباً کہا: ”قبول ہے۔“ یوں تین مرتبہ انہوں نے پوچھا اور لڑکے نے ہاں میں یعنی قبول کیا کے الفاظ بولے اور یہ پوچھنے کے فوراً بعد کال کاٹ دی۔ یہ فنکشن صرف نکاح کا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ اس سب کے بعد لڑکے کا اپنی بیوی سے فون پر جھگڑا ہوا تواس نے بیوی کو طلاق دے دی ان الفاظ کے ساتھ کہ ”جا میرے وَلوں طلاق اِی“ 3 مرتبہ یہ الفاظ بولے۔ چونکہ اس وقت لڑکا باہر کے ملک ہی میں تھا اس لیے یہ سب واٹس ایپ پر ہوا اور طلاق بھی واٹس ایپ پر وائس میسجز کی صورت میں دی ۔ بعد ازاں لڑکا ایک ہفتے کے لیے پاکستان گیا تو رخصتی کا سلسلہ ہوا اور وہ لڑکی کو گھر لے آئے اور صحبت وغیرہ بھی ہوئی۔ یہ گمان کرتے ہوئے کہ ایسے طلاق نہیں ہوتی، خاندان کے بڑوں سے بھی پوچھا تو انہوں نے ایسا ہی کہا کہ یوں طلاق نہیں ہوتی۔ شریعت ا س بارے میں کیا کہتی ہے؟ یہ نکاح ہوا یا نہیں؟ طلاق ہوئی یا نہیں؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

بیان کردہ صورتِ حال کے بعد یہ واضح ہے کہ یہ نکاح منعقد ہی نہ ہوا، کیونکہ انعقادِ نکاح کی ایک شرط ”ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا“ اس میں مفقود رہی۔ اس لیے کہ لڑکا باہر کے ملک میں تھا جبکہ نکاح کی مجلس پاکستان میں منعقد تھی، نکاح خواں کو صرف موبائل پر لڑکے کا عکس نظر آ رہا تھا یا آواز سنائی دے رہی تھی، لیکن وہ فیزیکلی طور پر نکاح کی مجلس میں موجود نہ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی وکالت وغیرہ کا سلسلہ ہوا، نیز بعد میں بھی تجدیدِ نکاح نہ ہوا۔جب نکاح ہی نہ ہوا تو طلاق دینا لغو گیا کہ عورت اس کے لیے محض اجنبیہ تھی۔ نیز یہ رخصتی وغیرہ کرنا ناجائز و حرام تھا، اور جو کچھ ان کے درمیان ہوا شرعا قطعاً حلال نہ تھا، ان دونوں پر توبہ فرض ہے۔

اب اگر یہ دونوں اکٹھے رہنا چاہتے ہیں تو نئے سرے سے شرعی طریقۂ کار کے مطابق گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا۔ نیز اگرشوہر باہرمیں ہی رہتے ہوئے پاکستان میں موجود عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کا ایک جائز طریقہ یہ ہے کہ لڑکا وہاں مجلسِ نکاح میں موجود کسی شخص کو اپنے نکاح کا وکیل بنا دے خواہ فون یا انٹر نیٹ ہی کے ذریعے، اور پھر وہ وکیل اس کی طرف سے ایجاب و قبول کا سلسلہ کر لے۔

اہم معروضات: جس شخص کو نکاح کرنا ہے اس پر نکاح و طلاق کے ضروری مسائل سیکھنا ضروری ہوتا ہے، ورنہ گناہ میں پڑے کا شدید خطرہ لاحق رہتا ہے جیسے کہ سوال مسئولہ میں ہوا۔ نیز سوال میں طلاق کے الفاظ کہنے کے باوجود رخصتی کا معاملہ بیان کیا گیا، اگر نکاح منعقد ہوا ہوتا تو ضرور طلاق دینے سے طلاق ہو جاتی، اس سب کے باوجود رخصتی کروانا اور طلاق نہ ہونے کا مسئلہ بتانا محض غلط و باطل ہے۔ جن لوگوں نے یہ غلط مسئلہ بتایا ان پر توبہ لازم ہے، انہیں ڈرنا چاہیئے کہ جو بغیر علم کے مسئلہ بتائے وہ گناہ گار اور عذابِ نار کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ واضح رہے کہ شرعی مسئلہ عالم دین سے پوچھنا چاہیے، خاندان کے بڑے بوڑھوں کا اس میں کیا کام؟

نیز اب اس بات کا خیال رہے کہ جب تک ان کا شرعا نکاح نہیں ہوجاتا، ان کا آپس میں میاں بیوی والے تعلقات رکھنا، بلا تکلف باتیں کرنا وغیرہ سب ممنوع ہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے قطعا نامحرم ہیں، اگرچہ قانونی کاغذات میں شوہر و زن رجسٹرڈ ہوں۔

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی � (المتوفی: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

”ومن شرائط الايجاب القبول: اتحاد المجلس“

ترجمہ: ایجاب و قبول کی شرائط میں سے مجلس کا ایک ہونا بھی ہے۔(الدر المختار شرح تنویر الابصار، ‌‌كتاب النكاح، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 178، مطبوعه: دار الکتب العلمیة)

شیخ الإسلام والمسلمین امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان� (المتوفی: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:

” اور کوئی ایجاب، مجلس سے باہر قبول پر موقوف نہیں رہ سکتا۔ کما نصوا علیہ فی عامۃ الکتب وفی النھر والدر من شرائط الایجاب والقبول اتحاد المجلس۔ وفی التنویر وشرحیہ لایتوقف الایجاب علی قبول غائب عن المجلس فی سائر العقود من نکاح وبیع وغیرھما بل یبطل الایجاب ولا تلحقہ الاجازۃ اتفاقا “ (ترجمہ: جیسا کہ فقہائے کرام نے کثیر کتبِ فقہ میں اس کی تصریح کردی ہے۔ النہر اور الدر المختار میں ہے کہ ایجاب وقبول کے معتبرہونے میں مجلس کا اتحاد ضروری ہے۔ نیز تنویر الابصار اورا س کی دونوں شرحوں میں ہے کہ ایجاب مجلس سے غائب کسی شخص کے قبول کرنے پر موقوف نہ ہوگا، تمام عقود بشمول نکاح وبیع وغیرہما کا یہی حکم ہے۔ بلکہ یوں ایجاب بالاتفاق باطل ہوجاتا ہے اور اس کو اجازت لاحق نہیں ہوتی۔ )“(فتاوی رضویہ، کتاب النکاح،جلد نمبر 11،صفحہ نمبر 164، رضا فاؤنڈیشن لاہور )

شیخ شمس الدين محمد بن عبد الله خطيب تمرتاشی غزی � (المتوفی: 1004ھ/ 1596ء) لکھتے ہیں:

”ومحله المنكوحة“

ترجمہ: طلاق کا محل منکوحہ (جس سے نکاح ہو چکا ہو وہ عورت ہی) ہے۔(تنوير الأبصار، کتاب الطلاق، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 66، مطبوعه: المکتبة النبوية)

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی � (المتوفی: 1423ھ/2001ء) لکھتے ہیں:

”ٹیلی فون کے ذریعے نکاح پڑھنا ہرگز صحیح نہیں۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر 01، صفحه نمبر 515، مطبوعه: اکبر بک سیلرز لاہور)

علامہ فرید الدین عالم بن العلاء الہندی � (المتوفی: 786ھ/1384ء) لکھتے ہیں:

”‌يصح ‌التوكيل ‌بالنكاح، وإن لم يحضره الشهود“

ترجمہ: نکاح کے لیے وکیل بنانا صحیح ہے اگرچہ گواہ حاضر نہ ہوں۔(الفتاوی التاتارخانیة، کتاب النکاح، الفصل الوكالة بالنکاح، جلد نمبر 4، صفحه نمبر 146، مطبوعه: مکتبة رشیدیة)

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی � (المتوفی: 1423ھ/2001ء) لکھتے ہیں:

”کوئی عورت مشرق میں ہو اور وہ کسی شخص کو اپنے نکاح کا وکیل بنا دے کہ تم میرا نکاح اتنے مہر کے ساتھ فلاں شخص سے کر دو جو مغرب میں ہے وکیل نے وہاں پہنچ کر دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرا دیا تو نکاح ہوگیا۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر 01، صفحه نمبر 514-515، مطبوعه: اکبر بک سیلرز لاہور)

امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی � سے مروی ہے:

”من ‌أفتى ‌بغير ‌علم ‌لعنته ‌ملائكة ‌السماء والأرض“

ترجمہ: جس نے بغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فرشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔(كنز العمال، جلد نمبر 10، صفحه نمبر 193، حدیث نمبر 29015، مطبوعه: مؤسسة الرسالة)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی � (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

”نجيز الكلام مع النّساء للأجانب ومحاورتهنّ عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهنّ رفع أصواتهنّ ولا تمطيطها ولا تليینها وتقطيعها لما في ذلك من استمالةالرّجال إليهنّ وَتحريك الشَهوَات منهم ومن ھذا لم تجز ان تؤذن المراۃ “

ترجمہ:ہم وقت ِضرورت اجنبی عورتوں سے کلام کو جائز سمجھتے ہیں ،البتہ یہ جائز نہیں قرار دیتے کہ وہ اپنی آوازیں بلند کریں ،گفتگوکو بڑھائیں ،نرم لہجہ رکھیں یا مبالغہ کریں،کیونکہ اس طرح تو مردوں کو اپنی طرف مائل کرنا ہے اور ان کی شہوات کوابھارنا ہے، اِسی وجہ سے تو عورت کا اذان دینا جائز نہیں۔(رد المحتارعلی الدرالمختار،کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلا ۃ ،مطلب فی ستر العورۃ،جلد نمبر 1،صفحہ نمبر 406،مطبوعہ: دار الفكر، بيروت)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

25 شوال المکرم 1444ھ / 16 مئی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں