احتجاج میں لوگوں کی اشیاء کو توڑنے اور لوٹنے کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ کسی بھی احتجاج کے دوران لوگوں کی اشیاء کو توڑنا،جلانا اور لوٹ مار کرنا اورسرکاری افسر یا ادارے کی اشیاء کو یہ سمجھ کر اٹھا لینا کہ یہ ہمار ا ہی مال ہے،ہمارے ٹیکس سے ہی یہ سب کچھ آیا ہے۔کیا یہ سب شرعا درست ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

سوال میں پوچھی گئی تمام صورتیں ناجائز و حرام ہیں ۔ لوگوں کی اشیاء کو توڑ پھوڑ یا آگ لگا دینا شرعا اور قانونا ناجائز و ظلم ہے۔ جس نے وہ چیز توڑی یا جلائی ہو اگرچہ بچہ ہی ہو اس پر تاوان لازم ہے کہ وہ توبہ و معافی کے ساتھ ساتھ اس چیز کی مثل یا اس کی قیمت واپس کرے۔

یونہی کسی بھی شخص یا ادارے کی چیز یہ سمجھ کر اٹھا لینا کہ یہ ہماری ہی شے ہے یہ اور زیادہ حرام ہے کہ ایک ناجائز و گناہ والے فعل کو جائز سمجھا جارہا ہے۔جس کی چیز اٹھائی ہو اس کو واپس کرنا لازم ہے۔اگر واپس کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی طرف سے صدقہ کردی جائے۔

یہ دلیل دینا کہ ہمارے ٹیکس سے یہ سب آیا ہے یہ دلیل بھی درست نہیں کہ ٹیکس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سرکاری ادارے کی اشیاء اب عوام کی ملکیت ہوگئیں ۔ دراصل کسی بھی مملکت اور ریاست کو ملکی انتظامی امور چلانے کے لیے،مستحقین کی امداد ،سڑکوں،پلوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر،بڑی نہروں کا انتظام،سرحد کی حفاظت کا انتظام ،فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو مشاہرہ دینے کے لیےاور دیگر ہمہ جہت جائز اخراجات کو پورا کرنے کے لیے حکومتیں ٹیکس لگاتی ہیں۔

نیز اس طرح کی توڑ پھوڑ و جلاؤ اور لوٹ مار شرعی قباحت کے ساتھ ساتھ قانونا بھی جرم ہے جس میں پکڑے جانے پر ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ خود کو ذلت پر پیش کرے۔

لوگوں کی اشیاء توڑنے اور جلانے کے متعلق فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضرت ابو سعید خدری � سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:

”لا ضرر ولا ضرار ، من ضار ضره الله ، ومن شاق شق الله عليه“

ترجمہ: نہ ضرر (نقصان) لو اورنہ ہی ضرردو،جوضرردے اللہ c اس کوضرردے گا، اورجومشقت میں ڈالے اللہ c اس کو مشقت میں ڈالےگا ۔(سنن الدارقطنی،جلد نمبر 4،صفحہ نمبر 51، حدیث نمبر 3079، مطبوعہ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

فتاوی قاضی خان میں ہے

’’صبيان اجتمعوا فی موضع يلعبون ويرمون فأصاب سهم أحدهم عين امرأة فذهبت والصبي ابن تسع سنين أو نحو ذلك قال الفقيه أبو بكر أرش عين المرأة في مال الصبي ولا شيء على الأب‘‘

ترجمہ: بچےکسی جگہ جمع ہوکر تیر اندازی کا کھیل کھیل رہے تھے ، کسی بچے کا تیر عورت کی آنکھ میں جالگا جس سے آنکھ ضائع ہوگئی اور بچے کی عمر نو سال یا اس کے قریب ہے تو فقیہ ابوبکر نے فرمایا :عورت کی آنکھ کا تاوان بچے کے مال سے ادا کیا جائے گا، اس کے باپ پر کچھ نہیں ہے ۔ (فتاوی قاضی خان علی ھامش الھندیہ ،جلد3،صفحہ 447،مطبوعہ کوئٹہ )

لوگوں کی اشیاء کو لوٹ لینا

قرآن پاک میں اللہ کریم کا فرمان ہے:

﴿وَلَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمْوَالَکُمۡ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ
وَتُدْلُوۡابِہَاۤ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِیۡقًا مِّنْ اَمْوالِ النَّاسِ بِالۡاِثْمِ وَاَنۡتُمْ تَعْلَمُوۡنَ﴾

ترجمہ کنزالایمان :اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤاور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔ (پارہ نمبر 2،سورۃ البقرۃ 2،آیت نمبر 188)

علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد انصاری قرطبی � (المتوفی:671ھ/1273ء) اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”‌الخطاب بهذه الآية يتضمن جميع أمة محمد صلى الله عليه وسلم، والمعنى: لا يأكل بعضكم مال بعض بغير حق. فيدخل في هذا: القمار ‌والخداع والغصوب وجحد الحقوق، وما لا تطيب به نفس مالكه“

ترجمہ: اس آیت میں خطاب حضور ﷺ کی تمام امت کو شامل ہے اور معنی یہ ہے کہ تم میں سے کوئی بھی دوسرے کا مال نا حق طریقے سے نہ کھائے، اس عموم میں جوا، غصب، حق دینے سے انکار کر کے حق کھا جانا، جس چیز کے دینے پر مالک راضی نہ ہو، اس کا لینا (وغیرہ سب شامل ہیں۔)(الجامع لأحكام القرآن، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 338، مطبوعه: دار الكتب المصرية، القاهرة)

حضرت انس بن مالک � سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه“

ترجمہ:کسی مسلمان کامال بغیراس کی رضاکے لیناحلال نہیں ہے ۔(سنن الدارقطنی،جلد نمبر 3،صفحہ نمبر 424، حدیث نمبر 2885، مطبوعہ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی حنفی � (المتوفى: 1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:

” لا يجوز لأحد من المسلمين ‌أخذ ‌مال ‌أحد بغير سبب شرعي“

ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب شرعی کے، کسی دوسرے کا مال لے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب کتاب الحدود باب التعزیر ، جلد نمبر 3، صفحه نمبر 178، مطبوعه: دار الفکر)

بدر الفقہاء اجمل العلماء علامہ مفتی محمد اجمل قادری رضوی � (المتوفی: 1383ھ/1963ء) لکھتے ہیں:

” جو مال بغیر مرضی مالک کے کسی طرح جبر و غصب سے حاصل کیا جاوے، وہ حرام و خبیث مال ہوا اور حرام و خبیث مال نہ تو کارِ خیر کے لائق ہے، نہ شرعا غاصب کو اس کے صرف کرنے کا حق حاصل، نہ بعد علم کے ایسے مال خبیث کا کارِ خیر میں لگانا جائز ہے بلکہ اس غاصب پر فرض ہے کہ جلد از جلد اس مال مغصوب کو اگر مالک زندہ ہے تو اس کو سونپ دے اور اگر مالک موجود نہ ہو تو اس کے ورثاء کو سپرد کرے اور اگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر مال اس کی طرف سے صدقہ کر دے۔“(فتاوی اجملیہ،جلد نمبر 3،صفحہ نمبر 322، مطبوعہ: شبیر برادرز لاہور)

غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے کی ممانعت

قرآن پاک میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿ وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِۚ﴾

ترجمہ کنزالایمان: اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔

اس آیت مبارکہ کے تحت صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

” اس طرح اور چیز بھی جو خطرہ ہلاک کا باعث ہو ان سب سے باز رہنے کا حکم ہے۔ “ (قرآن کریم ،پارہ 2،سورۃ البقرہ،آیت 195)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

”لا ینبغی للمؤمن أن یذل نفسہ”

ترجمہ: مومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت ورسوائی میں مبتلا کرے ۔ (جامع الترمذی،ابواب الفتن،باب ماجاء فی النھی عن سب
الریاح،جلد02،صفحہ498،مطبوعہ لاہور)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشادفرماتے ہیں :

”کسی ایسے امر کاارتکا ب جو قانوناًناجائز ہواور جرم کی حد تک پہنچے شرعابھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لئے جرم قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور ذلت کے لئے پیش کرناشرعابھی روانہیں۔“ (فتاوی رضویہ
،جلد20،صفحہ192،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــہ

ابواحمدمفتی محمد انس رضا قادری

26 شوال المکرم1444؁ھ17 مارچ 2023؁ء

اپنا تبصرہ بھیجیں