کیا وقف کی جگہ کو ضرورتاً بیچا جاسکتا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا وقف کی جگہ کو ضرورتاً بیچا جاسکتا ہے جیسے ایک جگہ مسجد یا مدرسہ کے لیے وقف کی اب واقف یا اس کی اولاد کسی وجہ سے کہے کہ اس کے بدلے میں ہم سے دوسری اچھی ،مہنگی جگہ لے لیں،کیا یہ تبدیلی درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

واقف نے اگر کوئی چیز وقف کر دی تو وہ چیز واقف کی ملک سے نکل جاتی ہے نہ خود وقف کرنے والا اس کا مالک رہتا ہے نہ دوسرے کو اس کا مالک بنا سکتا ہے نہ اس کو بیچ سکتا ہے نہ عاریتاً دے سکتا ہے نہ ہی اس کو رہن رکھ سکتا ہے۔ ہاں اگر واقف نے وقف کرتے ہوئے یہ شرط لگائی تھی کہ میں یا میری اولاد جب مناسب جانیں گے تو اس کو دوسری جائیداد سے بدل دیں گے اِس صورت میں واقف یا اس کی اولاد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس جگہ کو بدل دیں اور یہ دوسری جگہ اُس موقوفہ کے قائم مقام ہوگی اور وہ تمام شرائط جو وقف نامہ میں تھیں وہ سب اس میں جاری ہونگی، اور اگر واقف نے ایسی کوئی شرط نہیں لگائی تھی تو اب اس کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہاں وقف اگر قابل انتفاع نہ رہے تو اس کے عوض دوسری زمین وقف کرسکتے ہیں لیکن اگر وہ جگہ قابل انتفاع ہے اور اس کی بدلے دوسری زمین دینا چاہیں جو کہ اس سے سو حصے زائد منفعت رکھتی ہو پھر بھی تبدیل کرنا جائز نہیں۔

در مختار میں ہے کہ: فاذا تم و لزم لایملک و لایملک و لایعار ولا یرھن

ترجمہ: جب وقف مکمل ہو ور لازم ہو جائے تو اب نہ واقف خود مالک ہے نہ کسی کو مالک بنا سکتا ہے نہ عاریتاً دے سکتا ہے اور نہ ہی رھن رکھ سکتا ہے۔

(در مختار ج6، ص 539،مطبوعہ لاھور)

 علامہ شامی علیہ الرحمة “و جاز شرط الاستبدال بہ ارضا اخری” کے تحت لکھتے ہیں کہ الاول ان یشترطہ الواقف لنفسہ او لغیرہ او لنفسہ و غیرہ فالاستبدال فیہ جائز علی الصحیح)

پہلی صورت یہ ہے کہ وقف کرنے والا اپنے لیے یا اپنے غیر کیلئے یا اپنے اور اپنے علاؤہ کسی اور دونوں کیلئے وقف کے بدلنے کی شرط لگائے تو صحیح قول کے مطابق اس کو تبدیل کر سکتے ہیں

(ردالمحتار،کتاب الوقف،مطلب: فی استبدال الوقف و شروطہ،ج6،ص589، مطبوعہ لاھور)

فتح القدیر میں ہے

الاستبدلال لا عن شرط ان کان لخروج الوقف عن انتفاع الموقوف علیہم بہ فینبغی ان لا یختلف فیہ وان کان لالذٰلك بل امکن ان یوخذ بثمن الوقف ما ھو خیر منہ فینبغی ان لا یجوز لان الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ دون زیادۃ اخری

ترجمہ: تبادلہ کرنا بغیر شرط جبکہ وقف”موقوف علیہ”کے لئے قابل انتفاع نہ ہو،مناسب ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہ کیا جائے، اور اگر یہ نہ ہو (یعنی وقف قابل انتفاع ہو) لیکن وقف کو فروخت کردیا جائے اور اس کے بدل اس سے اعلٰی اور عمدہ زمین خرید لی جائے تو مناسب ہے کہ یہ صورت جائز نہ ہو، کیونکہ واجب یہ ہے کہ جس حالت پر پہلے وقف تھا اسی حالت پر اسے باقی رکھا جائے اور اس میں کوئی زیادت اور اضافہ نہ کیا جائے۔

(فتح القدیر کتاب الوقف، ج5، ص440، مکتبہ نوریہ رضویہ)

خلاصہ کلام یہ نکلا کہ اگر وقف کرنے والے نے جگہ کو تبدیل کرنے کی شرط لگائی تھی تو تبدیل کر سکتا ہے۔ اور اگر شرط نہیں لگائی تھی اور جگہ بھی قابل انتفاع ہے پھر بھی بدلنا جائز نہیں اور اگر وہ جگہ کسی وجہ سے قابل انتفاع نہ رہی تو اب اس کو بہتر و عمدہ جگہ  بدلنا جائز ہے۔

کتبہ:- محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

اپنا تبصرہ بھیجیں