کیا شوال کے چھ روزے لگاتار رکھنا اور عید کے فورا بعد رکھنا ضروری ہیں؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا شوال کے چھ روزے لگاتار رکھنا اور عید کے فورا بعد رکھنا ضروری ہیں؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جی نہیں شوال کے چھ روزے لگاتار اور عید کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ افضل یہ ہے کہ ان روزوں کو الگ الگ رکھا جائے، اور عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لیے، جب بھی حرج نہیں۔

جیسا کہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے: (وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار۔

ترجمہ:- (شوال کے چھ روزے متفرق رکھنا مستحب ہے) اور مختار مذھب کے مطابق لگاتار رکھنا بھی مکروہ نہیں۔

(درمختار ج3، ص 485، مطبوعہ کوئٹہ)

 بہار شریعت کے حاشیے میں  فرماتے ہیں: ’’ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق (یعنی جدا جدا) رکھے جائیں اور عید کے بعد لگاتار چھ دن میں ایک ساتھ رکھ لیے، جب بھی حرج نہیں۔”

(بہارِ شریعت ج1، ص1010، مکتبة المدینہ کراچی)

خلیلِ ملّت حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد خلیل خان قادِری برکاتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی فرماتے ہیں: یہ روزے عید کے بعد لگاتار رکھے جائیں تب بھی مضایقہ نہیں اور بہتر یہ ہے کہ مُتَفَرِّق (یعنی جدا جدا)  رکھے جائیں یعنی (جیسے)  ہر ہفتے میں  دو روزے اور عید الفطر کے  دوسرے روز ایک روزہ رکھ لے اور پورے ماہ میں رکھے تو اور بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔

(سنی بہشتی زیور ص347)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل و صلی اللّٰہ علیہ وسلم

کتبہ:- محمد عمیر علی حسینی مدنی غفر لہ

اپنا تبصرہ بھیجیں