پیر و مرشد کا صحیح العقیدہ و پابند شرع ومتقی و پرہیزگار ہونا ضروری ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ آج کل کئی لوگ پیر بنے ہوئے ہیں جن میں بعضوں کے عقائد درست نہیں بعض بے عمل ہیں ،آپ مستند دلائل سے راہنمائی فرمائیں کہ پیر کس کو بنانا چاہیے اور پیر میں کیا شرائط دیکھنا ضروری ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پیر و مرشد کا صحیح العقیدہ و پابند شرع ومتقی و پرہیزگار ہونا ضروری ہے لہذا ایسا شخص جس کے عقائد درست نہیں ہیں یا وہ پابند شرع نہیں اس کا پیر بننا اور دوسروں کا اس کی بیعت کرنا درست نہیں ہے

اللہ پاک نے قرآن پاک میں جہاں اولیاء کرام کا ذکر فرمایا:

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(62)

ترجمہ:سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.

تو اس کے بالکل متصل ان کی دو صفتیں بھی  بیان فرمائی ہیں چناچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(63)

ترجمہ:وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے.

(پ11 سورۃ یونس آیت نمبر62,63)

یعنی ولی وہ ہوتا ہے جو مؤمن بھی ہو اور صاحبِ تقوی بھی ہو.

اسی آیت نمبر 63 کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ صاوی علیہ الرحمۃ تفسیر صاوی میں ارشاد فرماتے ہیں

ان اولیاء اللہ ھم الذین اتصفوابالایمان وھو”اعتقاد الصحیح المبنی علی الدلائل القطعیہ” والتقوی وھو”امتثال المامورات واجتناب المنھیات علی طبق الشرع”

یعنی اولیاء اللہ صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو ایمان و تقوی سے متصف ہوں اور ایمان نام ہے ان اعتقادات صحیحہ کا جن کی بنیاد دلائل قطعیہ پر ہو.اور تقوی یہ ہے کہ جن چیروں کے کرنے کاحکم دیا گیا ہے شریعت کے مطابق ان پر عمل کرنا اورجن چیزوں سے منع کیا گیا ان سے رک جانا.

(تفسیر صاوی جلد دوم 182دارالجیل بیروت)

“تفسیر خازن”میں ہے

وقال المتكلمون: ولي الله من كان آتيا بالاعتقاد الصحيح المبني على الدليل ويكون آتيا بالأعمال الصالحة على وفق ما وردت به الشريعة وإليه الإشارة بقوله الذين آمنوا وكانوا يتقون.

یعنی متکلمین یعنی علم کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجا لاتا ہو اور اسی کی طرف اللہ تعالی کے اس فرمان “الذين آمنوا وكانوا يتقون” میں اشارہ ہے یعنی وہ ایمان تقوی کا جامع ہو.

(التفسیر الخازن لباب التأویل فی معانی التنزیل ج2 ص451)

ان عبارات سے ثابت ہوا ولی پابند شرع ہوتا ہے لہذا جو سوال میں آج کل کے بعض پیروں کا ذکر ہوا کہ کوئی بے عمل ہے اور کوئی بد عقیدہ گستاخ صحابہ ان کی بیعت جائز نہیں کیونکہ بدعقیدہ شخص تو باعمل بھی ہو تو گمراہ ہے اور بے عمل فاسق معلن جیسے داڑھی منڈا، لمبی زلفیں رکھنے والا، جاہل،بے نمازی ، اجنبیہ عورتوں سے تعلقات رکھنے والا وغیرہ وہ ہرگز پیر بننے کے قابل نہیں ۔ایسے پیر کی بیعت کی ہوتو بیعت توڑنا واجب ہے۔

فتاوی افریقہ” میں اعلی حضرت عظیم البرکت علیہ الرحمۃ پیر کی شرائط بیان کرت ہوئے فرماتے ہیں مرشد اتصال کیلئے چار شرطیں ہیں

1). مرشد کاسلسلہ باتصال صحیح (یعنی درست واسطوں کے ساتھ)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے.بیچ میں منقطع (جدا)نہ ہو کہ منقطع کے ذریعے اتصال(تعلق)ممکن نہیں ہے.

بعض لوگ بغیر بیعت کے بزعم وراثت اپنے باپ دادا کے سجادے پر بیٹھ جاتے ہیں یا بیعت کی تھی مگر خلافت نہ ملی بلا اذن (بغیر اجازت)مرید کرنا شروع کردیتے ہیں یا سلسلہ ہی قطع کردیا گیا٬ اس میں فیض نہ رکھا گیا لوگ برائے حوس اس میں اذن و خلافت دیتے چلے آتے ہیں یا سلسلہ فی نفسہ صحیح تھا مگر بیچ میں ایسا کوئی شخص واقع ہوا جو بعض شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے قابل بیعت نہیں تھا اس سے جو شاخ چلی وہ بیچ سے منقطع ہے ان تمام صورتوں میں اس بیعت سے ہرگز اتصال(تعلق) نہ ہوگا

2).مرشد سنی صحیح العقیدہ ہو.

بدمذہب گمراہ کا سلسلہ شیطان تک پہنچے گا نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک آج کل بہت کھلے بددینوں بلکہ بےدینوں حتی کہ وہابیہ نے کہ جوسرے سے منکر و دشمن اولیا ہیں مکاری کیلئے پیری مریدی کا جال بچھا رکھا ہے خبردار ہوشیار احتیاط!

3).عالم ہو.

یعنی کم از کم اتنا علم ضروری ہے کہ بلا کسی امداد کے اپنی ضروریات کے مسائل کتاب سے نکال سکے کتب بینی(یعنی مطالعہ کرکے) اور افواہ رجال (یعنی لوگوں سے سن سن کر) بھی عالم بن سکتاہے علم فقہ اس کی اپنی ضروریات کے قابل کافی .اور عقائد اہلسنت سے لازمی پورا واقف ہو کفر و اسلام گمراہی و ہدایت کا خوب عارف (جاننے والا)ہو ورنہ آج بدمذہب نہیں کل ہو جائے گا.

4).فاسق معلن(یعنی اعلانیہ گناہکرنے والا)نہ ہو.

اس شرط پر حصولِ اتصال موقوف نہیں ہے(یعنی حضور علیہ السلام سے  تعلق کا دارو مدار اس شرط پر نہیں) کہ فسق و فجور باعث فسخ نہیں. مگر پیر کی تعظیم لازم ہے اور فاسق کی توہین واجب ہے اور دونوں کا اجتماع(یعنی ایک جگہ جمع ہونا)باطل ہے

(ملخصاً فتاوی افریقہ ص123,124 مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد)

واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مجیب:عبدہ المذنب زاہد بشیر مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں