معتکف کا مسجد سے بلاضرورت خارج مسجد جانے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ اعتکاف میں غسل مسنون کے لیے خارج مسجد جانا کیسا ہے؟ کیا اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا؟

الجواب بعون الملک الوہاب ھدایۃ الحق والصواب

معتکف کا مسجد سے بلاضرورت خارج مسجد جانے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے صرف دو عذر ایسے ہیں جن کی وجہ سے معتکف مسجد سے نکل سکتا ہے

1).حاجت شرعی     2).حاجت طبعی

عذر شرعی جیسے اگر اس مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تو جمعہ کی نماز کیلئے دوسری مسجد میں جانا وغیرہ

اور عذر طبعی جیسے غسل فرض ہوگیا ہے یا وضو کرنا ہے یا پیشاب وغیرہ کےلئے مسجد سے نکلنا….

جبکہ فنائے مسجد میں غسل خانہ و وضو خانہ وغیرہ موجود نہ ہو. اگر فنائے مسجد میں یہ چیزیں موجود ہوں تو اب ان کےلئے بھی خارج مسجد جانے کی اجازت نہیں ہے اگر جائے گا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا لہذا غسل مسنون کےلئے بھی خارج مسجد جانے کی اجازت نہیں ہوگی  کیونکہ یہ نہ تو حاجت شرعی میں آتا ہے اور نہ ہی حاجت طبعی میں.بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم غسل کے لئے مسجد سے نہیں نکلتے تھے بلکہ اپناسر مبارک باہر نکال دیتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کا سر مبار دھو دیتی تھیں

ہاں اگر فنائے مسجد میں یہ سہولیات موجود ہوں تو وہاں غسل مسنون کیلئے جانے میں کوئی حرج نہیں  کیونکہ اس معاملے میں فنائے مسجد عین مسجد کے حکم میں ہے

“بخاری شریف”میں ہے

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُبَاشِرُنِي وَأَنَا حَائِضٌ وَكَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ مِنَ المَسْجِدِ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ، فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرماتی ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مجھ سے جسم مس فرماتے حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور اپنا سر مبارک اعتکاف کی حالت میں میری طرف نکال دیتے تو میں آپ کے سر مبارک کو دھو دیتی تھی حالانکہ میں حائضہ ہوتی

(صحیح البخاری ج1 کتاب الاعتکاف, باب غسل المعتکف  ص 665 حدیث 2030,2031 دارالکتب العلمیہ البیروت)

“فتاوی شامی”میں ہے

وَحَرُمَ عَلَيْهِ الْخُرُوجُ إلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ طَبِيعِيَّةٍ كَبَوْلٍ وَغَائِطٍ وَغُسْلٍ لَوْ احْتَلَمَ وَلَا يُمْكِنُهُ الِاغْتِسَالُ فِي الْمَسْجِدِ كَذَا فِي النَّهْرِ (أَوْ) شَرْعِيَّةٍ كَعِيدٍ وَأَذَانٍ لَوْ مُؤَذِّنًا وَبَابُ الْمَنَارَةِ خَارِجَ الْمَسْجِدِ وَ الْجُمُعَةِ

اس پر نکلنا حرام ہے مگر یا تو انسان کی طبعی حاجت کیلئے جیسے پیشاب اور پاخانہ اور غسل اگر احتلام ہوا ہو(یعنی غسل فرض ہوگیا ہو) اور مسجد میں غسل کرنا ممکن نہ ہو ایسا ہی “النھر الفائق”میں یے یا انسان کی حاجت شرعی کیلئے جیسے عید یا اذان کیلئے اگر یہ مؤذن ہے تو اور (اذان دینے کیلئے)منارے کا دروازہ خارج مسجد میں ہو اور جمعہ کیلئے.

(حاشیۃ ابن عابدین المعروف فتاوی شامی ج2 باب الاعتکاف ص 445 دارلافکر البروت )

“بہار شریعت” میں ہے

معتکف کو مسجد سے نکلنے کے دو عذر ہیں ۔

ایک حاجت طبعی کہ مسجد میں  پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ، پیشاب، استنجا، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل، مگر غسل و وضو میں  یہ شرط ہے کہ مسجد میں  نہ ہو سکیں  یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں  وضو و غسل کا پانی لے سکے اس طرح کہ مسجد میں  پانی کی

کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں  گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں  وضو اس طرح کر سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجدمیں  نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔یوہیں  اگر مسجد میں  وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں ۔

دوم حاجت شرعی مثلاً عید یا جمعہ کے لیے جانا یا اذان کہنے کے لیے منارہ پر جانا، جبکہ منارہ پر جانے کے لیے باہر ہی سے راستہ ہو اور اگر منارہ کا راستہ اندر سے ہو تو غیر مؤذن بھی منارہ پر جا سکتا ہے مؤذن کی تخصیص نہیں.

(بہارشریعت حصہ5 اعتکاف کا بیان ص 1025 مکتبۃ المدینہ)

“فتاوی امجدیہ”میں صاحبِ بہار شریعت صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں

فنائے مسجد جو جگہ مسجد سے باہر اس سے ملحق ضروریات مسجد کیلئے ہو مثلا جوتا اتارنے کی جگہ یا غسل خانہ وغیرہ ان میں جانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا بلا اجازت شرعیہ اگر نکل کر باہر چلا گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا فنائے مسجد اس معاملے میں حکمِ مسجد میں ہے

(فتاوی امجدیہ ج 1 کتاب الصوم ص 399 مکتبہ رضویہ آرام باغ روڈ کراچی)

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں