جو جگہ جس مقصد کے لیے وقف کی جائے اس کے علاوہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں

وقف میں تبدیلی کرنا کیسا ہے جیسے مسجد کی جگہ پر مدرسہ بنانا کیا درست ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جو جگہ جس مقصد کے لیے وقف کی جائے اس کے علاوہ میں تبدیل کرنا جائز نہیں اس لیے مدرسہ کو مسجد بنانا یا مسجد کو مدرسہ بنانا جائز نہ ہو گا

اعلی حضرت محدث بریلوی رضی عنه ربه القوی تحریر فرماتے

ہیں مطلق مسجد کو مدرسہ میں شامل کر لیا جائے یہ حرام اور سخت حرام ہے*

_ فتاویٰ رضویہ جلد ششم صفحہ  (381)*_

اور

* عالمگیری خانیہ جلد دوم صفحہ (490) میں ہے*

لایجوز تغییر الوقف

جب اپنی زمین کو مسجد کیا اور مسجد تعمیر کی اور لوگوں کو گواہ کر لیا کہ اسکا باطل کرنا اور بیچنا مجھے جائز ہوگا تو یہ شرط باطل ہے اور وہ مسجد ہو جائے گی اسی طرح اگر مسجد کسی محلہ والوں کے لئے بنائی اور کہا کہ میں نے خاص اس محلہ والوں کے لئے اسے مسجد کیا تو یہ شرط بھی باطل ہے اور وہ عام مسجد ہو جائے گی ہر شخص کو اس میں نماز کا اختیار ہوگا اگرچہ وہ غیر محلہ کا ہوذخیرہ میں یونہی ہے

فتاویٰ رضویہ جدید ج 16 ص335

اور فتاوی رضویہ میں اسی طرح کے سوال میں سیدی اعلی حضرت علیہ رحمہ فرماتے ہیں۔

وقف کی تبدیل جائز نہیں، جو چیز جس مقصد کے لیے وقف

ہے اسے بدل کر دوسرے مقصد کے لئے کردینا روانہیں، جس طرح مسجد یا مدرسہ کو قبرستان نہیں کرسکتے یونہی قبرستان کو مسجد یا مدرسہ یا کتب خانہ کردینا حلال نہیں.

۔سراج وہاج پھر فتاوٰی ہندیہ میں ہے :

لایجوز تغیر الوقف عن ھیأتہ فلا یجعل بستانًا ولا الخان حمامًا ولا الر باط دکانًا الًااذا جعل الواقف الی الناظر مایری فیہ مصلحۃ الوقف اھ قلت فاذالم یجز تبدیل الھیأۃ فکیف بتغییر اصل المقصود۔

وقف کواس کی ہیئت سے تبدیل کرنا جائز نہیں لہذا گھر کا باغ بنانا اور سرائے کا حمام بنانا او ر ر باط کا دکان بنانا جائز نہیں، ہاں جب واقف نے نگہبان پر معاملہ چھوڑ دیا ہو کہ وہ ہر وہ کام کرسکتا جس میں وقف کی مصلحت ہوتوجائز ہے اھ قلت( میں کہتاہوں) جب ایك ہیت کی تبدیلی جائز نہیں تو اصل مقصود کی تغیر کیونکر جائز ہوگی!

فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الرابع عشر فی المتفرقات)( نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۹۰)

(فتاوی رضویہ ج ٩ ص ۴٦٦)

فتاوی فقیہ ملت میں ہے

مسجدکی جگہ پر مدرسہ بنانایامدرسےکی جگہ پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے جوجگہ جس کیلئے خریدی گئی ہےوہی چیز اس میں بنائی جائئے دوسری چیز بنانا جائز نہیں اسی طرح کےسوال کےجواب میں فتاوی فقیہ ملت میں ہیں کہ جب مدرسہ کےنام پر زمین خریدی گئی اوراس کےاکثرحصہ پرمدرسہ کی تعمیربھی ہوگئی تواراکین مدرسہ اس کےکسی گوشہ میں مسجدتعمیرنہیں کر سکتے کہ وہ زمین مدرسہ کیلئے وقف ہوگئی خواہ وہ زمین کسی نےوقف کی ہویاچندہ کی رقم سے مدرسہ کیلئے زمین خریدی گئی ہو البتہ اس میں کوئی کمرہ بنا کر اسے نماز کیلئے خاص کرسکتےہیں مگروہ جگہ مسجدکےحکم میں نہیں ہوگی اورتغییر وقف جائزنہیں یعنی مدرسہ کی زمین کو مسجد بنا نا یا مسجد کی زمین کومدرسہ بناناجائزنہیں فتاوی عالمگیری میں ہے لایجوز تغییر الوقف ( جلددوم صفحہ 490 ) اورحضرت علامہ ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی تحریرفرماتےہیں الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ( ردالمختارجلدسوم صفحہ 427 ) ( ماخوذ فتاوی فقیہ ملت جلددوم کتاب الوقف صفحہ 130 مکتبہ فقیہ ملت دہلی)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب ۔؛ مولانا فرمان رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں