کیا حضور علیہ السلام کے حاضرو ناظر ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں؟

کیا فرماتے ہیں علمائےدین کہ کیا حضور علیہ السلام کے حاضرو ناظر ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اہلسنت کاعقیدہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اطہرکے ساتھ روضہ منورہ میں تشریف فرما ہیں اور تمام کائنات آپ کے سامنے حاضر ہے جسے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں جب چاہیں جہاں چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں اگر ایک وقت میں متعدد جگہوں پر تشریف لے جانا چاہیں تو یہ بھی ممکن ہے یہی حاضر و ناظر کا مفہوم و مطلب ہے نہ یہ کہ آعپ اپنے مخصوص جسم کے ساتھ ہرجگہ بالفعل موجود ہیں جیسا کہ بدمذہبوں  نے اہل سنت پر افتراء باندھا ہے اور پھر اسے بنیاد بنا  کر لغو اور لایعنی  قسم کے اعتراضات کا سلسلہ شروع کردیا جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں.

قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا

اے نبی!بیشک ہم نے تمہیں حاضر و ناضر بنا کر بھیجا ہے

(پ22سورۃ احزاب آیت 45)

اس آیت مبارکہ کے تحت “تفسیر ابی سعود” میں ہے

(یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا)على من بعثت إليهم تراقب أحوالهم وتشاهد أعمالهم وتتحمل منهم الشهادة بما صدر عنهم من التصديق والتكذيب وسائر ما هم عليه من الهدى والضلال وتؤديها يوم القيامة أداء مقبولا

یعنی اے نبی بے شک ہم نے آپ کو گواہ بنا کر بھیجا ہے ان لوگوں پر جن کی طرف آپ مبعوث کئے گئے آپ ان کے اعمال کی نگرانی کرتے ہیں ان کے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں ان سے صادر ہونے والی تصدیق و تکذیب اور ہدایت وگمراہی پر گواہ بنتے ہیں اور قیامت کے دن یہ ان کی گواہی دیں گے جو قبول ہوگی

(تفسیر ابی سعود ج7ص107 مطبوعہ داراحیاءالتراث عربی- البیروت )

اور”تفسیر روح المعانی” میں ہے

فحصل من مجموع هذا الكلام النقول والأحاديث أن النبي صلى الله عليه وسلم حي بجسده وروحه وأنه يتصرف ويسير حيث شاء في أقطار الأرض وفي الملكوت

یعنی اس کلام کے نقول و احادیث کے مجموعے سے ثابت ہوا کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اطہر اور روح مقدس کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام زمین و آسمان میں جہاں چاہیں تصرف فرمائیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جائیں.

(تفسیر روح المعانی ج11 ص215 دارالکتب العلمیہ البیروت)

 اعلیحضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے “کنزالایمان” میں “شاہدا”کا ترجمہ ’’حاضرناظر ‘‘ فرمایا ہے ،

اس کے بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادى رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ “خزائن العرفان” میں فرماتے ہیں:

شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے ، مفرداتِ راغب میں  ہے ’’اَلشُّھُوْدُ وَ الشَّھَادَۃُ اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃ‘‘ یعنی شہود اور شہادت کے معنی ہیں  حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے ،بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ

(خزائن العرفان، الاحزاب، تحت الآیۃ:45، ص784 مکتبۃ المدینہ )

اور “صراط الجنان فی تفسیر القرآن” میں اس آیت کے تحت لکھاہے:

اگر اس کا معنی ’’گواہ‘‘ کیا جائے تو بھی مطلب وہی بنے گا جو اعلیٰ حضرت      رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ترجمے میں  لکھا، کیونکہ گواہ کو بھی اسی لئے شاہد کہتے ہیں  کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے اس کو بیان کرتا ہے اورسرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چونکہ تمام عالَم کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں  اور آپ کی رسالت عامہ ہے ،جیسا کہ سورہِ فرقان کی پہلی آیت میں  بیان ہواکہ

’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا‘‘(فرقان:1)

ترجمہ کنزُالعِرفان: وہ (اللہ) بڑی برکت والا ہے جس  نے اپنے بندے پرقرآن نازل فرمایا تا کہ وہ تمام جہان والوں کو ڈر سنانے والا ہو۔

(صراط الجنان فی تفسیر القرآن تحت الآیۃ الاحزاب 45 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

“الحاوی للفتاوی” میں علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :

فحصل من مجموع ھذہ النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی بجسدہ و روحہ وانہ یتصرف ویسیر حیث شاء فی اقطار الارض و فی الملکوت

یعنی ان نقول و احادیث سے ثابت ہوا کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جسم اطہر اور روح مقدس کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام زمین و آسمان میں جہاں چاہیں تصرف فرمائیں اور جہاں چاہیں تشریف لے جائیں.

(الحاوی للفتاوی ج 2 ص319مطبوعہ دارالفکر بیروت-لبنان)

“جاء الحق” بحث حاضر وناظرکے مقدمہ میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اللہ القوی حاضروناظر کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

عالم میں حاضر ناظر کے معنی یہ ہیں کہ قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھے اور دور و نزدیک کی آوازیں سنے یا ایک آن کی آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور صد ہاکوس پر حاجتمندوں کی حاجت روائی کرے.یہ رفتار خواہ صرف روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو جو قبر میں مدفون یا کسی جگہ موجود ہے

(جاء الحق حصہ اول,مقدمہ بحث حاضر و ناظر,ص116 ,مطبوعہ قادری پبلشر لاہور)

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مجیب:ابو معاویہ زاہد بشیر مدنی

کیا حضور علیہ السلام کے حاضرو ناظر ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں