میلاد کو ناجائز اور 14 اگست کو جائز قرار دینا

میلاد کو ناجائز اور 14 اگست کو جائز قرار دینا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ منکرین میلاد سے جب ہم کہتے ہیں کہ تم لوگ 14 اگست،23مارچ اور دیگر دن مناتے ہو لیکن میلاد نہیں مناتے تو ان کے مولوی یہ جواب دیتے ہیں کہ 14 اگست اور دیگر جو دن ہیں یہ دنیاوی کام ہیں اس لیے ان کو منانا جائز ہے اور عید میلاد یہ دینی کام ہے اور حدیث میں فرمایا گیا دین میں جو نیا کام ہو بدعت ہے ،اس لیے ہم عید میلاد نہیں مناتے۔آپ مستند دلائل سے ثابت کریں کہ منکرین کا یہ کہنا کیا درست ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

منکرین جشن میلاد النبی ﷺ کا یہ جواب محض باطل و کالعدم ہے، کسی کم پڑھے لکھے شخص کا منہ بند کروانے کے لیے یہ دھوکا تو چل سکتا ہے لیکن جو شخص دینی معاملات کی کچھ سمجھ بوجھ رکھتا ہے اس پر اس جواب کا بطلان واضح ہے، کہ یوں ان ایونٹس کو دینی دنیوی کی تقسیم میں ڈال کر اپنے لیے جواز اور جشن میلاد منانے والوں کے لیے عدم جواز پر استدلال کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ درج ذیل سطور سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے گی کہ یہ جواب ایک دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں جس سے بھولے بھالے سنی مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سعئ شنیع کی جاتی ہے۔

اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے، مسلمان کے تمام افعال اسلام کے تابع ہیں۔ خواہ وہ گھریلو کام ہوں یا گھر سے باہر کی مصروفیات، نوکری اور تجارت کے مشاغل ہوں یا شراکت داری اور انویسٹمنٹ کے معاملات، رشتہ داروں اور دوستوں کی نجی بیٹھکیں ہوں یا کسی بھی قسم کی محافل و اجتماعات، الغرض ہر کام میں اسلام پر عمل پیرا رہنا اور قرآن و سنت کے احکامات کی پابندی کرنا مسلمان پر لازم ہے۔ پس پتہ یہ چلا کہ بظاہر دنیاوی دکھنے والے کام بھی ہمارے دین اسلام میں داخل ہیں جیسے: حکومت، ریاست، سرکاری معاملات وغیرہ۔ چنانچہ رب تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً﴾ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔

(پارہ نمبر 2، سورۃ البقرۃ 2، آیت نمبر 208)

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کرام نے یہ بھی تحریر کیا: ”یاد رکھو کہ اسلام ایک مکمل دستور زندگی ہے ، اس کے اپنے عقائد ہیں ، اس کا اپنا دیوانی اور فوجداری قانون ہے۔ سیاسیات اور معاشیات کے متعلق اپنے نظریات ہیں ، اور یہ انسان کی ذہنی ، روحانی اور مادی ترقی کا ضامن ہے۔ لیکن اس کی برکتیں تب ہی رونما ہو سکتی ہیں ، جبکہ اسے ماننے والے اسے پورا کا پورا اپنا لیں، اور اس کے تمام ضابطوں اور قوانین پر عمل پیرا ہوجائیں۔“

(تفسیر اشرفی، جلد نمبر 1 ، صفحہ نمبر 247، مطبوعه: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)

نیز اگر ہم اپنے مقصد حیات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمیں تو پپدا ہی رب تبارک وتعالیٰ کی عبادت اور فرمابرداری کے لیے کیا گیا ہے، خواہ ہماری زندگی کا کوئی بھی لمحہ ہو، دینی طور پر یا دنیاوی طور پر، خانگی نجی معاملہ ہو یامعاشرتی اجتماعی، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری ہی مسلمان کے لیے نصب العین ہے۔ نیز کراماً کاتبین دو فرشتے ہر وقت آدمی کے ساتھ ہوتے ہیں اور جو کچھ وہ کرتا ہے اسے لکھتے ہیں، کل کو اس کا یہی اعمال نامہ اسے دیا جائے گا۔ قرآن کریم میں اس لکھنے کا بیان عام ہے جس میں کوئی ایسی قید نہیں کہ معاذ اللہ دینی کام تو نامۂ اعمال میں لکھے جاتے ہیں مگر دنیوی نہیں۔ یوں ہی قیامت کے دن حساب و کتاب حق ہے، اس دن جس آدمی سے حساب ہوگا تو وہ اس کی زندگی کے تمام امور کو شامل ہوگا خواہ وہ کام بظاہر دنیاوی ہو یا دینی۔ ایک ایک بات کی باز پرش میں تمام افعال داخل ہیں ایسا نہیں کہ دینی کاموں کے بارے میں تو سوال ہوگا لیکن دنیوی کاموں کے متعلق کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔

اللہ کریم قرآنِ حکیم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)﴾ترجمہ کنز العرفان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔

(پارہ نمبر27، سورۃ الذاریات 51، آیت نمبر 56)

نیز اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا﴾ترجمہ کنز العرفان: اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔

(پارہ نمبر 15، سورۃ بنی اسرائیل 17، آیت نمبر 12)

مذکورہ آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مفتی اہل سنت ابو صالح مفتی محمد قاسم عطاری ﷾خزائن العرفان سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”یعنی ہم نے قرآن میں ہر چیز کو تفصیل سے بیان فرمادیا خواہ اس کی حاجت تمہیں دین میں ہو یا دنیا کے کاموں میں۔ مقصد یہ ہے کہ ہرایک چیز کی تفصیل بیان فرمادی جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: ﴿مَا فَرَّطْنَا فِی الۡکِتٰبِ مِنۡ شَیۡءٍ﴾ترجمہ کنزالعرفان:ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔(سورۃ انعام:۳۸) نیز ایک اور آیت میں ارشاد کیا: ﴿وَ نَزَّلْنَا عَلَیۡکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ﴾ ترجمہ کنزالعرفان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا جو ہر چیز کا روشن بیان ہے۔(سورۃ النحل:۸۹) غرض ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم میں جمیع اَشیاء کا بیان ہے، سبحان اللہ عزوجل! کیا کتاب ہے اور کیسی اس کی جامعیت ہے۔“

(تفسیر صراط الجنان، جلد نمبر 5 ، صفحہ نمبر 430-431، مطبوعه: مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَ (۱۰) كِرَامًا كَاتِبِیْنَ (۱۱) یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ (۱۲)﴾ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تم پر کچھ ضرور نگہبان مقرر ہیں ۔معزز لکھنے والے۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو۔

(پارہ نمبر 30، سورۃ الانفطار 82، آیت نمبر 10)

اس آیت مبارکہ کے تحت علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی ﷫(المتوفی: 1225ھ/1810ء) لکھتے ہیں: ”وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ اى والحال ان عليكم لَحٰفِظِیْنَ لاعمالكم وأقوالكم من الملائكة. كِرَامًا على الله كَاتِبِیْنَ صحف الأعمال للجزاء“ ترجمہ: حالانکہ تمہارے اعمال اور اقوال کی نگہداشت کرنے والے فرشتے تم پر مقرر ہیں۔جو اللہ کے ہاں معزز اور سزا و جزا کے لیے تمہارے اعمال ناموں میں (تمہارے ہر عمل کو) لکھنے والے ہیں۔

(تفسیر مظہری، جلد نمبر 10 ، صفحہ نمبر 215، مطبوعه: مكتبة الرشدية ، کوئٹہ)

حضرت عبداللہ بن عباس ﷜سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”إن الله ينهاكم عن التعري ‌فاستحيوا ‌من ‌ملائكة الله الذين معكم الكرام الكاتبين الذين لا يفارقونكم إلا عند إحدى ثلاث حالات: الغائط والجنابة والغسل“ ترجمہ: بیشک اللہ پاک نے تمہیں ننگا ہونے سے منع فرمایا، پس اللہ کے فرشتوں سے حیا کرو جو تمہارے ساتھ ہوتے ہیں، معزز ہیں (اورجو تم کرتے ہو سب کچھ) لکھنے والے ہیں، جو تم سے جدا نہیں ہوتے سوائے تین حالتوں میں سے کسی ایک حالت کے وقت: پاخانہ، جنابت اور غسل کی حالت۔

(مسند بزار، جلد نمبر 11 ، صفحہ نمبر 89، حدیث نمبر 4799، مطبوعه: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ﷫ (المتوفی: 1391ھ/1971ء) لکھتے ہیں: ””وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو ” اس کرنے میں قلب و قالب، دل و دماغ سب اعضاء کے کام داخل ہیں، اگر صرف دل کے کام مراد ہوں تو وہ فرشتے ہمارے اچھے برے اردے اور اچھے خیالات، سانس اور دل کے ذکر و فکر، مومن کا ایمان، منافق کا نفاق کیسے لکھیں، حالانکہ وہ فرشتے سب لکھتے ہیں۔ “

(تفسیر نور العرفان، سورۃ الانفطار، صفحه نمبر 937، مطبوعه: فرید بکڈپو لمیٹڈ، دہلی)

رب تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(۱۳) اِقْرَاْ كِتٰبَكَ ؕكَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًا(۱۴)﴾ترجمہ کنز العرفان: اور ہم اس کے لیے قیامت کے دن ایک نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ کھلا ہوا پائے گا۔ (فرمایا جائے گا کہ) اپنا نامہ اعمال پڑھ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔

(پارہ نمبر 15، سورۃ بنی اسرائیل 17، آیت نمبر 14)

اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابو الفداء اسماعيل بن عمر ابن کثیر (المتوفی: 774ھ/ 1373ء) لکھتے ہیں: ”والمقصود أن عمل ابن آدم محفوظ عليه، قليله وكثيره، ويكتب عليه ليلا ونهارا، صباحا ومساء“ ترجمہ: مقصود یہ کہ آدمی کے تمام اعمال اس کے نامہ اعمال میں محفوظ ہیں، قلیل و کثیر، کم زیادہ، اور اس کے اعمال صبح شام، دن و رات برابر اس کے نامہ اعمال میں لکھے جا رہے ہیں۔

(تفسیر ابن کثیر، جلد نمبر 5، صفحه نمبر 51، مطبوعه: دار طيبة للنشر والتوزيع)

مفتی اہل سنت ابو صالح مفتی محمد قاسم عطاری ﷾اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ”جب قیامت کا دن آئے گا تو آدمی کا نامہ اعمال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا اور اس کے بعد کا مرحلہ اگلی آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اس سے فرمایا جائے گا : اپنا نامہ اعمال پڑھ ، آج اپنے متعلق حساب کرنے کیلئے تو خود ہی کافی ہے۔“

(تفسیر صراط الجنان، جلد نمبر 5 ، صفحہ نمبر 432، مطبوعه: مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ﴾ترجمہ کنز العرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے ۔

(پارہ نمبر 8، سورۃ اعراف 7، آیت نمبر 8)

اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابو عبد الله محمد بن احمد قرطبی ﷫(المتوفی:671ھ/1273ء) لکھتے ہیں: ”والمراد بالوزن وزن أعمال العباد بالميزان“ ترجمہ: اور وزن سے مراد میزان ( ترازو) کے ساتھ بندوں کے اعمال کا وزن کرنا ہے۔

(الجامع لأحكام القرآن، سورۃ الاعراف، جلد نمبر 7، صفحه نمبر 164-165، مطبوعه: دار الكتب المصرية، القاهرة)

منح الروض الزہر میں ہے: ”واعلم أن من أنكر القيامة أو الجنة أو النار، أي وجودهما في الجملة … أو الميزان أو الصراط أو الحساب، … أو الصحائف المكتوبة فيها أعمال العباد، يكفر، أي لثبوتها بالكتاب والسنة وإجماع الأمة“ اور جان لو کہ جو شخص قیامت یاجنت و دوزخ یعنی ان دونوں کے فی الجملہ موجود ہونے یا میزان یاپل صراط یا حساب کتاب یا ان دفاتر کا جن میں بندوں کے (زندگی بھر کےتمام) اعمال لکھے ہوئے ہوں گے ان کا انکار کرے تو اس کی تکفیر کی جائے گی کیونکہ ان کا ثبوت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ہے۔

(منح الروض الأزهر في شرح الفقه الأكبر، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 520، مطبوعه: دار البشائر الإسلامية)

پھر بدعت کو محض دینی کاموں کے ساتھ مقید کرنا ہرگز درست نہیں،دنیاوی نو ایجاد کام بھی لازمی طور پر بدعت ہی کہلائیں گے۔ جیسا کہ ام ّالمؤمنین سیدتنا عائشہ صدیقہ ﷞فرماتی ہیں: ”‌أولُ ‌بدعةٍ حدثَتْ بعدَ رسولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الشبعُ، إنَّ القومَ لما شبعتْ بطونُهم جمحتْ بهم نفوسُهم إلى الدنيا“ ترجمہ: سب سے پہلی بدعت جو رسول اللہ ﷺ کے (وصالِ ظاہری) کے بعد پیدا ہوئی، وہ پیٹ بھر کر کھانا کھانا ہے، جب لوگوں کے پیٹ بھرے تو اس کے ساتھ ان کی نفس دنیا کی طرف دوڑ پڑے۔

(سبل السلام شرح بلوغ المرام، جلد نمبر 8، صفحه نمبر 204، مطبوعه: دار ابن الجوزي للنشر والتوزي، السعودية)

بدیہی سی بات ہے، پیٹ بھر کر کھانا کھانا یہ کوئی دینی عمل تو نہیں، عین دنیاوی عمل ہے پھر بھی فقیہۂ اُمت امّ المؤمنین ﷞ نے اسے بدعت قرار دیا۔ یوں ہی عمدہ کھانے، نفیس لباس وغیرہ کو علمائے امت و فقہائے معتمد نے بدعت میں شمار کیا حالانکہ یہ خالص دنیاوی کام ہیں، چنانچہ علامہ زين الدين محمد المعروف عبد الرؤوف المناوی ﷫(المتوفی: 1031ھ/1621ء) فیض القدیر میں، علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی ﷫ (المتوفی:1014ھ/1605ء)مرقاة المفاتیح میں،محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی ﷫ (المتوفی: 1052ھ/1642ء) اشعۃ اللمعات میں، اور خاتم المحققین علامہ ابن عابدين سید محمد امين بن عمر شامی ﷫ (المتوفى:1252ھ/1836ء) رد المحتار المعررف فتاوی شامی میں لکھتے ہیں: والفظ للشامی ”ومباحة ‌كالتوسع بلذيذ المآكل والمشارب والثياب“ ترجمہ: اور بدعت مباحہ (بھی) ہوتی ہے جیسے عمدہ کھانے، شربتوں اور نفیس کپڑوں میں وسعت کرنا۔

(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلوة، باب الإمامة، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 560، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

بلکہ مرقاة المفاتیح میں علامہ ملا علی قاری ﷫نے تمام امور؛ خواہ وہ دنیاوی ہی کیوں نہ ہوں، ان کے دین کے تحت داخل ہونے کی تصریح کرتے ہوئے، بخاری و مسلم کی اس حدیث جسے مشکوۃ میں بھی روایت کیا گیا کہ ”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أحدث ‌في ‌أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد“ ترجمہ: رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہمارے اس دین میں اگر کوئی ایسی بات ایجاد کرے جو دین میں سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔

(صحيح البخاري، کتاب الصلح، جلد نمبر 2، صفحه نمبر 959، حدیث نمبر 2550، مطبوعه: دار ابن كثير، دمشق -صحيح مسلم، ‌‌كتاب الأقضية، جلد نمبر 5، صفحه نمبر 132، حدیث نمبر 1718، مطبوعه: دار الطباعة العامرة ، تركيا)

اس حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: ”وعبر عنه بالأمر تنبيها على أن هذا الدين هو أمرنا الذي نهتم له ونشتغل به بحيث لا يخلو عنه شيء من أقوالنا وأفعالنا“ ترجمہ: حدیث پاک میں دین کو “امر” سے تعبیر کیا اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے کہ یہ دین ہی ہمارا اصل معاملہ ہے جس کو ہم اہمیت دیتے ہیں اور اس پر عمل کرنے میں (ہر لحظہ) ہم مشغول رہتے ہیں اس لیے کہ ہماری کوئی بات یا ہمارا کوئی بھی کام دین سے خالی نہیں ہو سکتا۔

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، کتاب الایمان، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 222، مطبوعه: دار الفكر، بيروت)

نیز مسلم شریف کی ایک دوسری حدیث پاک ”أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌من ‌عمل ‌عملا ليس عليه أمرنا فهو رد“ ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا دین نہیں تو وہ مردود ہے۔

(صحيح مسلم، ‌‌كتاب الأقضية، جلد نمبر 5، صفحه نمبر 132، حدیث نمبر 1718، مطبوعه: دار الطباعة العامرة ، تركيا)

اس کی شرح میں لکھتے ہیں: ”(من عمل عملا) أي من أتى بشيء من الطاعات أو بشيء من الأعمال الدنيوية والأخروية “ ترجمہ: (حدیث پاک کے الفاظ)” جس شخص نے کوئی عمل کیا” (یہ عام ہیں خواہ کوئی بھی کام ہو) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نیکی کے کاموں میں سے کوئی نیکی سر انجام دے یا دنیاوی کاموں اور دینی کاموں میں سے کوئی عمل سر انجام دے۔

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، کتاب الایمان، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 222، مطبوعه: دار الفكر، بيروت)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ﷫ (المتوفی: 1391ھ/1971ء) بدعت کو صرف دنیاوی کاموں کے ساتھ مقید کرنے کا اعتراض اور اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:”اعتراض: بدعت صرف اس دینی کام کو کہیں گے جو کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ایجاد ہو۔ دنیاوی نئے کام بدعت نہیں ۔لہذا محفل میلاد وغیرہ توبدعت ہیں اور تار ٹیلیفون،ریل گاڑی کی سورای بدعت نہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے۔ “مَن اَحدَثَ فِی اَمِرنَا ھٰذَامَالَیسَ مِنہُ فَھُوَرَدٌ” جو شخص ہمارے دین میں کوئی بات نکالے وہ مردود ہے “امرنا” سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیاوی ایجادات بدعت نہیں اور دینی بدعت کوئی بھی حسنہ نہیں سب حرام ہیں،کیونکہ حدیث میں ان سب کو کہا گیا کہ وہ مردود ہے۔جواب:دینی کام کی قید لگانا محض اپنی طرف سے ہے احادیث صحیحہ اور اقوال علماء اور محدثین کے خلاف ہے۔حدیث میں ہے:” کُلَّ مُحدثٍ بدعۃٌ “ہرنیا کام بدعت ہے۔ اس میں دینی یا دنیاوی کی قید نہیں،نیز ہم اشعۃ اللمعات اور مرقاۃ کی عبارتیں نقل کرچکے ہیں کہ انہوں نے عمدہ کھانے،اچھے کپڑے،بدعت جائزہ میں داخل کئے ہیں ۔یہ کام دنیاوی ہیں ،مگر بدعت میں ان کو شمار کیا لہذا یہ قید لگانا غلط ہے۔ اگر مان بھی لیاجاوے کہ بدعت میں دینی کام کی قید ہے تو دینی کام اسی کو تو کہتے ہیں جس پر ثواب ملے۔ مستحبات،نوافل،واجبات،فرائض سب دینی کام ہیں کہ اس کو آدمی ثواب کے لئے کرتا ہے اور دنیا کا کوئی بھی کام نیت خیر سے کیا جاوے اس پر ثواب ملتا ہے۔حدیث میں آتا ہے کہ مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا صدقہ کا ثواب رکھتا ہے۔ اپنے بچوں کو پالنا نیت خیر سے ہوتو ثواب ہے، حَتَّی اللُّقَمَتِہ تَرفَعُھَانِی فِی اِمرَاء تِکَ یہاں تک کہ جو لقمہ اپنی زوجہ کے منہ میں دے وہ بھی ثواب۔ لہذا مسلمان کا ہر دنیاوی کام دینی ہے۔اب بتاؤ کہ نیت خیر سے پلاؤ کھانا بدعت ہے یا نہیں ؟نیز دینی کام کی قید لگانا آپ کے لئے کوئی مفید نہیں، کیونکہ دیوبندکا مدرسہ، وہاں کا نصاب دورہ حدیث، تنخواہ لے کر مدرسین کا پڑھانا، امتحان اور تعطیلات کا ہونا،آج قرآن پاک میں اعراب لگانا، قرآن وبخاری چھاپنا، مصیبت کے وقت ختم بخاری کرنا جیسا کہ دیوبند میں پندرہ روپیہ لے کر کرایا جاتا ہے،بلکہ سارا فن حدیث بلکہ خود احادیث کو کتابی شکل میں جمع کرنا بلکہ خود قرآن کو کاغذ پر جمع کرنا،اس میں رکوع بنانا،اس کے تیس سپارے کرنا وغیرہ وغیرہ سب ہی دینی کام ہیں اور بدعت ہیں ،کیونکہ حضور ﷺکے زمانہ میں ان میں سے کوئی کام نہ ہوا تھا۔بولویہ حرام ہیں یہ حلال؟بیچارے محفل میلاد شریف اور فاتحہ شریف نے ہی کیا قصور کیا ہے جو صرف وہ تو اس لئے حرام ہوں کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں نہ تھا اور اوپر ذکر کئے ہوئے سب کام حلال۔“

(جاء الحق، بدعت کے معنی اور اقسام، جلد نمبر 1، صفحه نمبر 184، مطبوعه: قادری پبلشرز، لاہور)

یہاں ایک اور بات کی طرف ذہن سبقت کرتا ہے کہ کوئی ان منکرین میلاد اور ان کے مولویوں سے پوچھے جو کہ دھوم دھام سے جشن آزادی مناتے اور اس کی تقریبات میں شرکت کرتے، وطن کی خاطر شہید ہونے والے شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے اور ان کے لیے مغفرت و بلندئ درجات کی دعائیں کرتے دکھائی دیتے ہیں، کیا یہ سب کام (دعائیں وغیرہ) ان کے نزدیک دنیوی کام ہیں یا دینی؟ یقینا ً دعا کرنے کو تو کوئی بھی دنیوی کام نہیں کہے گا بلکہ دعا تو خالص دینی کام بلکہ عبادت ہے، اور عبادت بھی کیسی کہ دعا کو عبادت کی مغز قرار دیا گیا ہے۔ پس واضح ہوا کہ یہ دینی و دنیوی کی تقسیم محض دھوکا دہی کے سوا کچھ نہیں۔

اللہ ﷯ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ﴾ترجمہ کنز العرفان: میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے۔

(پارہ نمبر 2، سورۃ البقرۃ 2، آیت نمبر 186)

نیز ارشاد خداوندِ قدوس ﷯ ہے: ﴿اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً﴾ترجمہ کنز العرفان: اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہ آواز سے دعا کرو ۔

(پارہ نمبر 8، سورۃ اعراف 7، آیت نمبر 55)

حضرت ابو ہریرہ ﷜سے مروی ہے: ”عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:ليس شيء أكرم على الله تعالى من الدعاء“ ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تر نہیں۔

(جامع ترمذي، باب ما جاء في فضل الدعاء،جلد نمبر 5، صفحه نمبر 385، حدیث نمبر 3370 ، مطبوعه: دار الغرب الإسلامي، بيروت)

حضرت انس بن مالک ﷜سے روایت ہے: ”عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: الدعاء ‌مخ ‌العبادة“ ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔

(جامع ترمذي، باب ما جاء في فضل الدعاء،جلد نمبر 5، صفحه نمبر 386، حدیث نمبر 3371 ، مطبوعه: دار الغرب الإسلامي، بيروت)

نیز یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ دین میں نیا کام ایجاد ہونا کب برا ہے؟ یاد رہے! ”ہر نیا کام برا ہے“ ایسا کہنا قطعا درست نہیں، کیونکہ ہر بدعت (نیا کام) نہ تو برا ہوتا ہے اور نہ ہی گمراہی۔ بدعت کا لغوی معنیٰ ”نئی چیز، نیا دستور یا نیا رواج“ ہے، اصطلاح شرع میں بدعت سے مرادوہ اعتقاد یا وہ اعمال ہیں جو کہ حضور ﷺ کے حیات ظاہری کے زمانے میں نہ ہوں، بعد میں ایجاد ہوئے ہوں۔ حدیث مبارکہ میں بدعت کو جو ضلالت (گمراہی) قرار دیا ہے اس سے مراد وہ بدعت ہے جو اسلام کے اصول و قواعد کے خلاف ہو اور اس سے کوئی سنت کا خلاف کرنا لازم آ رہا ہو۔ پس بدعت کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہوئیں:

(1) بدعتِ حسنہ

(2) بدعتِ سیئہ

بدعتِ حسنہ سے مراد وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف نہ ہو، جیسے میلاد شریف کے موقع پر محافل کا انعقاد کرنا، جلوس نکلنا، سالانہ ختم بخاری کی محافل کرنا، واعظ و نصیحت کے اجتماعات کرنا، دینی کتابوں کا چھا پنا وغیرہ۔ بدعتِ سیئہ سے مراد وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف یا سنت کو مٹانے والا ہو، جیسے عربی کے علاوہ کسی زبان میں جمعہ و عیدین کا خطبہ دینا، مسجد کے اندر اذان دینا، میوزک والی نعتیں، وغیرہ۔ بدعت کی یہ تقسیم قرآن و حدیث اور قواعدِ اسلامیہ کے عین مطابق ہے جس پر کثیر نصوص ناطق ہیں۔ اگر اس تقسیم کو نہ مانا جائے اور ہر ایک بدعت کو برا اور ناجائز قرار دیا جائے تو دین اسلام کے موجودہ نظام اور صحابہ کرام و تابعین سمیت پوری امت کا بدعتی ہونا لازم آئے گا جو کہ بالکل درست نہیں۔ صحابہ کرام ﷢کے دور سے لے کر آج تک ہر زمانے میں بدعتوں کا ظہور ہوتا رہا ہے، ان میں سے جو اچھی بدعتیں ظاہر ہوئیں انہیں علما و صلحا نے نا صرف قبول کیا بلکہ بہت سوں کو مستحسن قرار دیا اور جو بری بدعتیں ظاہر ہوئیں انہیں علما و صلحا نے نہ صرف مذموم جانا بلکہ مکروہ و حرام وغیرہ علی حسب المراتب ان کا حکم بیان کیا۔ جہاں تک جشن میلاد منانے کا تعلق ہے تو یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ نفسِ میلاد تو قرآن و حدیث اور عمل صحابہ و تابعین سے ثابت ہے، نیز مروجہ انداز میں میلاد منانا بلاشبہہ جائز و مستحسن اور عمل علمائے کرام و صلحائے عظام سے ثابت ہے، بلکہ دیکھا جائے تو آج کے دور میں نبی کریمﷺ کی ولادت کی خوشی منانا سنی ہونے کی پہچان اور اہل سنت و باطل فرقوں کے درمیان حد فاصل بن چکا ہے۔

یہاں آخر میں میلاد پر بدعت کے فتوے لگانے والے اور دینی و دنیوی کی تقسیم کرنے والوں سے یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ سیرت کانفرنس، ختم بخاری، درس قرآن، سیرت صحابہ وغیرہ کے جلسے، یہ سب کیا ہیں؟ جنہیں منکرین میلاد خوب شان و شوکت سے کرتے ہیں۔ نیز منکرین یہ سب دین سمجھ کر کرتے ہیں یادنیا، اگر دین سمجھ کر کرتے ہیں تو پھر کیا یہ سب دین میں بدعت (نئی چیز) کیوں نہیں؟ اگر یہ دنیوی فعل سمجھتے ہیں تو اپنی عوام کو کیوں نہیں بتاتے جو کہ سیرت کانفرنس میں لاکھوں روپے ثواب سمجھ کر لگار رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ بارہ ربیع الاول شریف کے دن کئی جگہوں پر سیرت کانفرنسیں ہوتی ہیں، یہ کہاں سے ثابت ہیں؟ کیا نبی پاک ﷺ نے سیرت کانفرنس کی، یا صحابہ کرام ﷢سے سیرت کانفرنس کا کوئی ثبوت ہے؟ پس جو جواب منکرین کا ہوگا وہی ہمارا۔ ظاہر ہے جب شریعت نے ان چیزوں کو منع نہیں کیا اور نہ ہی یہ کسی سنت کے خلاف ہیں تو بلا شبہہ جائز ہیں، یوں ہی حضور اقدس ﷺ کی ولادت کی خوشی منانا، گھر سجانا، محافل کا انعقاد کرنا، جلوس نکلانا سب جائز و مستحسن ہے۔

علامہ بدرالدین ابو محمد محمود بن احمد عینی ﷫ (المتوفى: 855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:”والبدعة لغة: كل شيء عمل علي غير مثال سابق، وشرعا إحداث ما لم يكن له أصل في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهي علی قسمين: ‌بدعة ضلالة، وهي التي ذكرنا، وبدعة حسنة: وهي ما رآه المؤمنون حسنا ولا يكون مخالفا للكتاب أو السنة أو الأثر أو الإجماع، والمراد هنا البدعة: الضلالة“ ترجمہ:لغوی طور پر بدعت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس پر بغیر کسی سابقہ مثال کے عمل کیا جائے، اور شرعی طور پر ایسی بات کا ایجاد کرنا جس کی اصل رسول اللہ ﷺ کے دورِ مبارک میں نہ ہو، بدعت کہلاتا ہے۔ نیز بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعتِ ضلالہ؛ یہ وہ ہے جسے ہم نے ذکر کیا۔ اور بدعتِ حسنہ؛ یہ وہ بدعت ہے جسے مسلمان اچھا سمجھیں اور وہ کتاب اللہ، سنتِ رسول ﷺ یا حدیث یا اجماع کے خلاف نہ ہو۔ پس یہاں بدعت سے مراد بدعتِ ضلالہ ہے۔

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ،جلد نمبر5،صفحہ نمبر230 ، مطبوعه: دار إحياء التراث العربي)

علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی ﷫ (المتوفی: 1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”وفی الشرع احداث مالم یکن فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“ ترجمہ: بدعت شریعت میں اس کا م کا ایجاد کرنا ہے جوکہ حضور ﷺ کے زمانہ میں نہ ہو۔

(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،جلد نمبر1،صفحہ نمبر223، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

بدمذہبوں (وہابیوں دیوبندیوں) کا امام، احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیہ (المتوفی:728ھ/1328ء) بدعتِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے:”والبدعة ما خالفت الکتاب والسنة أو اجماع سلف الأمّة من الاعتقادات والعبادات کأقوال الخوارج والروافض والقدرية والجهمية“ترجمہ:بدعت سے مراد ایسا کام ہے جو اعتقادات و عبادات میں کتاب و سنت اورسابقہ علمی ہستیوں کے اِجماع کی مخالفت کرے جیسے خوارج، روافض، قدریۃ اور جہمیۃ کے عقائد۔

(مجموع الفتاوى،جلد نمبر18،صفحہ نمبر346، مطبوعه: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف،السعودية)

امام جلال الدین سیوطی﷫، امام بیہقی﷫ ،ملا علی قاری ﷫ اور وہابیوں کے پیشوا شوکانی وغیرہ، حضرت امام شافعی ﷜سے روایت کرتے ہیں: ”المحدثات من الامور ضربان احدھما احدث مما یخالف کتاباً اوسنّۃً اواثراً اواجماعاً فھٰذہ البدعۃ ضالۃ والثانی ما احدث من الخیر ولاخلاف فیہ لواحد من ھٰذہ وھی غیر مذمومۃ“ترجمہ:نو ایجاد باتیں دوقسم کی ہیں: ایک وہ ہیں کہ قرآن یااحادیث یاآثارو اجماع کے خلاف نکالی جائیں یہ توگمراہ کن بدعت ہے۔ دوسری وہ اچھی بات کہ جسے ایجاد کیا جائے اوراس میں ان چیزوں کاخلاف نہ ہو تووہ بری نہیں۔

( القول المفید فی أدلۃ الاجتہاد والتقلید،جلد نمبر1،صفحہ نمبر79، مطبوعه: دار القلم ،الکویت)

حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی ﷫ (المتوفی:505ھ/1111ء)کیمیائے سعادت میں ارشادفرماتے ہیں:”ایں ہمہ گرچہ بدعت ست وازصحابہ وتابعین نقل نہ کردہ اندلیکن نہ ہرچہ بدعت بودنہ شاید کہ بسیاری بدعت نیکوباشد پس بدعت مذموم آں بود کہ برمخالفت سنّت بود“ترجمہ:یہ سب اموراگرچہ نوایجادہیں اورصحابہ وتابعین ﷢سے منقول نہیں ہیں مگرایسابھی نہیں، کہ ہرنئی بات ناجائزہوکیونکہ بہت ساری نئی باتیں اچھی ہیں۔ مذموم بدعت وہ ہوگی جوسنت رسول کے مخالف ہو۔

(کیمیائے سعادت ،رکن دوم،اصل ہشتم،باب دوم،صفحہ نمبر388,389، مطبوعه: انتشارات گنجینہ ،ایران)

علامہ احمد بن علی ابن حجر عسقلانی ﷫ (المتوفی: 852ھ/1449ء) فتح الباری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:”والبدعۃ ان کانت مماتندرج تحت مستحسن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تحت مستقبح فی الشرع فھی مستقبحۃ الافھی من قسم المباح“ترجمہ: بدعت اگر کسی ایسی چیزکے تحت داخل ہو جس کی خوبی شرع سے ثابت ہے تو وہ اچھی بات ہے اوراگرکسی ایسی چیزکے تحت داخل ہو جس کی برائی شرع سے ثابت ہے تو وہ بری ہے اور جو دونوں میں سے کسی کے تحت داخل نہ ہو تو وہ قسم مباح سے ہے۔

( فتح الباری،کتاب التراویح،باب فضل من قام رمضان،جلد نمبر4،صفحہ نمبر253، مطبوعه: دارالمعرفۃ،بیروت )

علامہ ملا علی قاری ﷫ایک مقام پر بدعت کی اقسام ہر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”البدعۃ اما واجبۃکتعلم النحو و تدوین اصول الفقہ واما محرمۃ کمذھب الجبریۃ واما مندوبۃ کا حداث الربط والمدارس و کل احسان لم یعھدفی الصدر الاول وکا لتراویح ای بالجماعۃ العامۃ واما مکروھۃ کذخرفۃ المساجد واما مباحۃ کا لمصافحۃ عقبب الصبح والتوسع فی لذائذ الماکل والمشارب“ ترجمہ:بدعت یا تو واجب ہے جیسے علمِ نحو کا سیکھنا او ر اصولِ فقہ کا جمع کرنا او ریاحرام ہے جیسے جبر یہ مذہب اور یا مستحب ہے جیسے مسافر خانوں اور مدرسوں کا ایجاد کرنا اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانہ میں نہ تھی اور جیسے عام جماعت سے تراویح پڑھنا یا مکروہ ہے جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا اور یا جائز ہے جیسے فجر کی نماز کے بعدمصافحہ کرنا اور عمدہ عمدہ کھانوں اور شربتوں میں وسعت کرنا ۔

(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان،جلد نمبر1،صفحہ نمبر368، مطبوعه: مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ )

اوپر بخاری و مسلم شریف کے حوالے سے حدیث پاک “من أحدث ‌في ‌أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد ” ذکر کی گئی ، اس کے تحت شارحین نے بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا ہے کہ دین میں بدعت سے کیا مراد ہے؟ چنانچہ علامہ شرف الدين حسین بن عبد الله طیبی﷫ (المتوفی: 743ھ/ 1342ء) اور علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی ﷫ (المتوفی:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”وفي قوله: “ما ليس منه” إشارة إلى أن إحداث ما لا ينازع الكتاب والسنة كما سنقرره بعد ليس بمذموم “ ترجمہ: حدیث پاک کے اس فرمان”ایسا کام جو دین میں سے نہیں” سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسا فعل ایجاد کرنا جو کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو ، وہ ہرگز مذموم (برا) نہیں، جیسا کہ ہم آگے اسے ثابت کریں گے ۔

(الكاشف عن حقائق السنن للطیبی،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،جلد نمبر2،صفحہ نمبر 603، مطبوعه: مكتبة نزار مصطفى الباز، الرياض-مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،جلد نمبر1،صفحہ نمبر222، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی ﷫ (المتوفی: 1052ھ/1642ء) لمعات التنقیح اور اشعۃ اللمعات میں لکھتے ہیں: ”أي: أحدث شيئًا لم يكن عليه من الكتاب والسنة سند صريحًا أو مستنبطًا، … والمراد ما كان مخالفًا مغيرًا لهما“ ترجمہ: دین میں نئی بات ایجاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی نئی چیز ایجاد کرنا جس پر کتاب و سنت سے کوئی سند نہ ہو، نہ صراحۃً نہ استنباطاً۔ … اور مراد یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو کتاب و سنت کے مخالف اور انہیں تبدیل کرنے والی ہو۔

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ،جلد نمبر1،صفحہ نمبر 445، مطبوعه: دار النوادر، دمشق )

نیز حدیث پاک کے حصہ “وكل ‌بدعة ‌ضلالة ” جس کو لوگوں کے سامنے پڑھ پڑھ کر بد مذہب میلاد اور دیگر جائز امورِ دینیہ کو بدعت کہہ کر اسے معاذ اللہ گمراہی قرار دیتے اور اعتراضات کرتے ہیں، اس کی بھی محدثین کرام نے واضح تشریح بیان کی ہے کہ اس سے دراصل کیا مراد ہے؟ چنانچہ علامہ نور الدین ملا علی قاری حنفی ﷫ (المتوفی:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”أي: كل بدعة سيئة ضلالة“ ترجمہ: حدیث پاک کے ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ ہر بدعتِ سیئہ گمراہی ہے۔

(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ،کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ،جلد نمبر1،صفحہ نمبر223، مطبوعه: دار الفکر، بیروت)

علامہ محی الدین ابو زكريا یحیی بن شرف نووی ﷫ (المتوفی: 676ھ/1278ء) لکھتے ہیں: ”وكل ‌بدعة ضلالة وأن المراد به المحدثات الباطلة والبدع المذمومة وقد سبق بيان هذا في كتاب صلاة الجمعة“ ترجمہ: اور حدیث پاک کے الفاظ” ہر بدعت گمراہی ہے” میں بدعت سے مراد (اچھی بدعتیں نہیں بلکہ) محض باطل نو ایجاد چیزیں اور مذموم بدعتیں ہیں، اور اس کا (تفصیلی) بیان نماز جمعہ کی باب میں گزر چکا ہے۔

(المنهاج شرح صحيح مسلم، جلد نمبر7،صفحہ نمبر 104، مطبوعه: دار إحياء التراث العربي، بيروت)

محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی ﷫ (المتوفی: 1052ھ/1642ء) لکھتے ہیں: ”بداں کہ ہر چیز پیدا شدہ بعد از پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بدعت ست۔ واز آنچہ موافق اصول و قواعد سنت اوست وقیاس کردہ شدہ است آں را بدعت حسنہ گویند وآنچہ مخالف آں باشد بدعت ضلالت خوایند و کلیت كل بدعت ضلالت محمول بر یں ست“ ترجمہ:معلوم ہونا چاہیے کہ جو کچھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نکلا اور ظاہر ہو ابدعت کہلاتا ہے ، پھراس میں سے جو کچھ اصول کے موافق اور قواعد سنت کے مطابق ہو اور کتاب و سنت پر قیاس کیاگیا ہو بدعت حسنہ کہلاتا ہے اور جو ان اصول و قواعد کے خلاف ہو اسے بدعت ضلالہ کہتے ہیں اور ” کل بدعۃ ضلالۃ” کا کلیہ اس دوسری قسم کے ساتھ خاص ہے۔“

( اشعۃ اللمعات ، کتاب الایمان، جلد نمبر 1 ، صفحه نمبر 68، مطوعہ قدیم )

پھر مروجہ میلاد شریف کے متعلق مستند علمائے کرام نے واضح طور پرلکھا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے، چنانچہ امام حلبی ﷫لکھتے ہیں:”وقد قال ابن حجر الہیتمی: والحاصل أن البدعۃ الحسنۃ متفق علی ندبہا، وعمل المولد واجتماع الناس لہ کذلک أی بدعۃ حسنۃ ‘‘ترجمہ: بلاشبہہ علامہ ابن حجر ہیتمی ﷫نے فرمایا : خلاصہ کلام یہ ہے کہ بدعت حسنہ کے مستحب ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ میلاد شریف کرنا اور اس کے لئے لوگوں کا اجتماع بھی بدعتِ حسنہ ہی ہے ۔

(انسان العیون ،باب تسمیتہ صلی اﷲعلیہ وسلم محمداواحمدا،جلد نمبر1،صفحہ نمبر 123، مطبوعه: دارالکتب العلمیہ ،بیروت)

علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی ﷫ (المتوفی: 1052ھ/1642ء) جامع ترمذی کی ایک حدیث پاک کے حصہ “ومن ابتدع بدعة ضلالة لا يرضاها الله ورسوله ( یعنی: اور جو بدعتِ ضلالہ ایجاد کرے جس سے اللہ اور اس کا رسول راضی نہیں۔)” پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”وقوله: (بدعة ضلالة) كأنه احتراز عن بعض البدع المستحسنة التي يقوى بها الدين كما مر من أقسام البدعة في أول الباب“ ترجمہ: حدیث پاک میں بدعتِ ضلالہ (گمراہ کن بدعت سیئہ) کی قید ہے یعنی کہ اس کے ساتھ ان بعض بدعات سے احتراز کیا گیا ہے جو کہ اچھی بدعتیں ہوتی ہیں جن سے دین کو تقویت ملتی ہے، جیسا کہ پہلے باب میں بدعت کی قسموں کے بیان میں کلام گزرا۔

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح، کتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ،جلد نمبر1،صفحہ نمبر 491، مطبوعه: دار النوادر، دمشق )

فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی ﷫ (المتوفی: 1423ھ/2001ء) لکھتے ہیں:” بدعت حسنہ کی مخالفت کرنے والے گمراہ نہیں تو جاہل اور جاہل نہیں تو گمراہ ضرور ہیں کہ قرآن کریم کے تیس پارے بنانا، ان میں رکوع قائم کرنا، اس پر اعراب یعنی زبر زیر وغیرہ لگانا، حدیث شریف کو کتابی شکل میں جمع کرنا، قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے علم نحو وصرف سیکھنا اور فقہ وعلم کلام کی تدوین یہ سب بدعت حسنہ ہیں جن کی مخالفت جاہل یا گمراہ کے سوا کوئی تیسرا نہیں کر سکتا۔“

(فتاوی فیض الرسول، جلد نمبر 01، صفحه نمبر 199-200، مطبوعه: اکبر بک سیلرز لاہور)

سبل الہدی والرشاد میں علامہ یوسف صالحی شامی ﷫(المتوفی: 942ھ) لکھتے ہیں:”ليس هذا من السنن، ولکن إذا أنفق في هذا اليوم وأظهر السرور فرحاً بدخول النبي صلی اللہ علیہ وسلم في الوجود… حسَن يُثاب“ ترجمہ:یہ عمل (مروجہ میلاد)سنن میں سے تو نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس دن مال خرچ کرتا ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود کے ظہور پذیر ہونے کی خوشی مناتا ہے تو یہ اچھا ہے، ثواب ملے گا۔

( سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم، جلدنمبر 1، صفحہ نمبر 364 ، مطبوعہ: مصر)

و اللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبــــــــــــــــــــــــــــہ

مولانا احمد رضا عطاری حنفی

26 ربیع الاول 1445ھ / 12 اکتوبر 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں