انبیاء و صالحین کے وسیلہ سے دعا مانگنا کہاں سے ثابت ہے؟

سوال: انبیاء و صالحین کے وسیلہ سے دعا مانگنا کہاں سے ثابت ہے؟

الجواب بعون الواھاب اللھم ھدیة الحق والصواب

بارگاہِ الٰہی میں نیک بندوں کا وسیلہ پیش کرنا دعاؤں کی قبولیت، مشکلات کے حل، مصائب و آلام سے چھٹکارے اور دینی و دُنیوی بھلائیوں کے حُصول کا آسان ذریعہ ہے۔ قراٰن و حدیث اور اَقوال و اَفعالِ بُزُرگانِ دین سے وسیلہ اِختیار کرنے کا ثُبوت ملتا ہے چنانچہ اللہ  ربّ العزّت کا فرمان ہے: ( وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ)

 ترجمۂ کنز الایمان:اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ (پ6، المآئدۃ:35)

نیز ہمارے پیارے مدنی آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمان فقرا کے وسیلے سے دعا فرمایا کرتے تھے چنانچہ طَبرانی شریف میں ہے: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ وَيَسْتَنْصِرُ بِصَعَالِيکِ الْمُسْلِمِينَ ترجمہ:نبیِّ پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مسلمان فقرا کے وسیلے سے فتح و نصرت طلب فرماتے تھے۔

(معجم کبیر،ج 1،ص292، حدیث: 859)

 وسیلے سے دعا کرنا جائز و مستحسن ہے

:علّامہ بدر الدین عینی حنفی (سالِ وفات855ھ) علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں:”مشکل گھڑی میں اپنے نیک اَعمال کے وسیلے سے دعا کرنا مستحب ہے۔

(عمدۃ القاری،ج 8،ص529،تحت الحدیث:2215)

امام تقِیُّ الدّین سُبْکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (سالِ وفات 756ھ) لکھتے ہیں:”نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کرنا جائز و مستحسن ہے، چاہے ولادتِ باسعادت سے قبل ہو، حیاتِ ظاہری میں ہو یا وِصال مبارک کے بعد ہو۔ اسی طرح آپ علیہ السَّلام سے خاص نسبت رکھنے والے بُزُرگوں کو وسیلہ بنانا بھی جائز و مستحسن ہے۔

(شفاء السقام، ص358،376)

حضرت آدم علیہ السَّلام نے کس کے وسیلے سے دعا کی؟:

حضرت سیّدنا آدم علیہ  الصلاۃ وَ السَّلام  نے حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وسیلے سے دعا کی تو ارشادِ باری تعالیٰ ہوا:بے شک! محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تمام مخلوق میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اور اب کہ تو نے ان کے  حق کے  واسطے سے سوال کیا ہے تو میں نے تمہاری مغفرت کردی اور اگر محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)  نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘(دلائل النبوۃ للبیہقی،ج5،ص489)

 امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں: اَنْتَ الَّذِیْ لَمَّا تَوَسَّلَ اٰدَمُ مِنْ زَلَّۃٍ بِکَ فَازَوَھُوَ اَبَاکَ یعنی آپ ہی وہ ہستی ہیں کہ جب جَدِّاعلیٰ آدم علیہ السَّلام نے لَغْزِش کے سبب آپ کا وسیلہ پکڑا تو وہ کامیاب ہوئے۔

(مجموعۂ قصائد، ص40)

 بنی اسرائیل  کا تابوتِ سکینہ کے وسیلے سے دعا کرنا: تابوتِ سکینہ میں انبیائے کرام علیہم السَّلام کے تبرکات تھے، بنی اسرائیل مشکل وقت میں اُس تابوت کے وسیلے سے دعا کرتے اور دشمنوں کے مقابلے میں فتح پاتے۔

(جلالین، پ2، البقرۃ، تحت الآیۃ: 248،ج1،ص142)

 دعائے مصطفٰے: نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کی والدہ کے لئے یوں دعا کی: اغْفِرْ لِاُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَدٍ، ولَقِّنْهَا حُجَّتَها، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مَدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي۔ ترجمہ: (اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!) میری ماں فاطمہ بنتِ اسد کی مغفرت فرما اور انہیں ان کی حجت سکھااور میرے اور مجھ سے پہلےنبیوں کے حق کے وسیلے سے اس  کی قبرکو وسیع فرما!

(معجم کبیر،ج24،ص351، حدیث:871)

علّامہ ابنِ عابِدِین شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نبیِّ کریم، رَءوفٌ رَّحیم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم، امام اعظم اور دیگر صالحین علیہ رحمۃ اللہ المُبِین کے وسیلے سے دعا کرتے تھے۔ (ردالمحتار،ج 1،ص18ملخصاً) فرمانِ غوثِ اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاَکرم: مَنْ تَوَسَّلَ بِیْ اِلَی اللہِ فِیْ حَاجَۃٍ قُضِیَتْ حَاجَتُہ جو مجھے وسیلہ بنا کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے کوئی حاجت طَلَب کرے اس کی حاجت پوری کی جاتی ہے۔

(نزہۃ  الخاطر  الفاتر، ص67)

میرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ

انہیں خُلد میں بسانا مدنی مدینے والے

(وسائل بخشش(مرمّم)، ص 429)

کتبہ

محمد طارق رضا مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں