سیرت کانفرنس کو جائز اور میلاد کو بدعت ثابت کرنے کا انوکھا اصول

سیرت کانفرنس کو جائز اور میلاد کو بدعت ثابت کرنے کا انوکھا اصول

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ میلاد کے منکراور سیرت کانفرنس کو جائز کہنے والے(وہابی ،دیوبندی) کہتے ہیں کہ اہل سنت میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرض و واجب کہتے ہیں اور مخصوص تاریخ میں کرتے ہیں جوکہ بدعت ہے اور سیرت کانفرنس کو ہم وہابی مستحب کہتے اوریہ مخصوص کرکے نہیں کیا جاتا ہے اس لیے جائز ہے۔ آپ اس حوالے سے راہنمائی فرمائیں کہ کیا میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل سنت کے نزدیک فرض و واجب ہے اور کیا دن مخصوص کرکے کوئی نیک کام کرنا جائز نہیں ہوتا ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

منکرینِ میلاد(وہابی ،دیوبندی،مرزا نجینئر گروہ وغیرہ) کی عقلوں پر ہزار تُف ہے کہ پہلے یہ کہتے تھے کہ میلاد اس وجہ سے ناجائز و بدعت ہے کہ حضور علیہ السلام اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں اور ان کے پرانے مولویوں نے واضح انداز میں میلاد کے ساتھ سیرت کے اجتما عات کو بھی بدعت لکھا ہے۔پھر جب ان لوگوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے دِلوں سے میلاد کی محبت ختم نہیں ہورہی اور وہ بھرپور انداز میں ہر سال بڑھ چڑھ کر اس کا اہتمام کررہے ہیں اوران( منکرینِ میلاد )مولویوں نے اپنی جیبیں بھی گرم کرنا چاہیں تو میلاد کے مقابلہ میں سیرت کانفرنس رائج کی اور اب ربیع الاول کے مہینے سمیت خاص بارہویں کی رات و دن اور سارا سال سیرت کانفرنس کے اجتماعات ہونا شروع ہوگئے۔

اب سوال یہ تھا کہ ساری زندگی تو یہ منکرین کہتے رہے کہ میلاد اس وجہ سے بدعت ہے کہ صحابہ کرام نے نہیں کیا تو سیرت کانفرنس بھی تو صحابہ کرام نہیں کی ہے اس طرح وہ بھی بدعت ہونی چاہیے، لیکن ان مولویوں کویہ معلوم تھا کہ ان کے فرقوں سے تعلق رکھنے والی لوگوں کو اتنی فہم نہیں اس لیے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو یوں بے وقوف بنایا کہ میلاد اور سیرت کانفرنس میں یہ فرق ہے کہ اہل سنت میلاد کو فرض و واجب سمجھتے ہیں اور مخصوص کرکے کرتے ہیں اور ہم سیرت کانفرنس میں ایسا نہیں کرتے۔

ان منکرین کی اس بونگی دلیل پر ان کے تمام فرقے والے مطمئن ہیں حالانکہ ہر ذی شعو یہ باخوبی سمجھ سکتا ہے کہ پہلے اصول تو یہ تھا کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے تو سیرت کانفرنس اس ا صول میں تو ناجائز و بدعت ہے ،وہ بعد کی بات ہے کہ یہ مستحب ہے یا نہیں پہلے اپنا سابقہ اصول تو دیکھو۔لہذا مطلب یہ ہوا کہ تم اپنا سابقہ اصول ختم کرچکے ہو کہ جو کام صحابہ نے نہ کیا ہو وہ اب مطلقا ًبدعت نہیں ہے۔ لیکن اپنی جاہل وہابی عوام کو تو بتادو کہ اب یہ اصول ہم چھوڑ چکے ہیں کیونکہ وہ طوطے کی طرح ابھی بھی میلاد کو اسی وجہ سے ناجائز کہہ رہی ہے کہ صحابہ کرام نے نہیں منایا اس لیے بدعت ہے۔

اب اگر تم یہ کہتے ہو کہ سیرت کانفرنس اس لیے جائز ہے کہ وہابی دیوبندی اسے واجب نہیں سمجھتے جبکہ اہل سنت میلاد فرض وواجب سمجھتے ہیں تو یہ آپ لوگوں کا اہل سنت پر صریح بہتان ہے۔ ہم ہرگز میلادشریف کو فرض و واجب نہیں کہتے اور نہ سمجھتے ہیں، اگر کسی مستند عالم نے ایسا لکھا ہے تو بطور ثبوت پیش کرو۔عبد المصطفیٰ اعظمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”جنتی زیور“ میں لکھتے ہیں:

” میلاد شریف اور گیارہویں شریف کی محفلوں کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ یہ سب جائز و درست اور بہت ہی بابرکت محفلیں ہیں اور یقیناً باعث ثواب اور مستحب ہیں۔“(جنتی زیور،صفحہ159،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

اسی طرح کی درجنوں اور بھی دلیلیں اہل سنت کی کتب میں موجود ہیں جس میں انہوں نے میلاد شریف کو مستحب لکھا ہے۔لہذا وہابی دیوبندی کا پہلا بہتان تو غلط ثابت ہوا ۔

اب آجاتے ہیں وہابی دیوبندی کے اگلے فریب پر کہ سیرت کانفرنس اس لیے جائز ہے کہ وہ دن مخصوص کرکے نہیں ہوتی جبکہ میلاد دن مخصوص کرکے ہوتا ہے۔ اب تمام وہابی، دیوبندی عوام سے میں پوچھتا ہوں کہ آپ نے کبھی بغیر تاریخ مقرر کیے اچانک سیرت کانفرنس ہوتے دیکھی ہے؟کیا آپ سیرت کانفرنس کی تاریخ مقرر نہیں کرتے؟اگر وہابی مولوی یہ کہیں کہ ہم ہرسال ایک ہی تاریخ بالخصوص بارہ ربیع الاول ہی کو سیر ت کانفرنس نہیں کرتے جیسے اہل سنت میلاد کرتے ہیں تو ا س کا پہلا جواب یہ ہے کہ اہل سنت بھی فقط بارہ ربیع الاول ہی کو میلاد منعقد نہیں کرتے سارا سال میلاد کی محافل ہوتی ہیں۔

لہذا اگر ایک سنی یہ کہے کہ میں میلاد کو مستحب کہتا ہوں اور بیس ربیع الاول کو میلاد کی محفل منعقد کرنا چاہتا ہوں جس میں حضور علیہ السلام کی سیرت بیان ہوگی۔ تواب وہابی مولوی اپنے جدید اصول کے مطابق بتائیں اسے میں کیا شرعی قباحت ہوگی؟اب تمہارے نزدیک تو یہ بالکل جائز و مستحب ہونا چاہیے ۔اگر یہ بدعت ہے تو سیرت کانفرنس بھی بدعت ہوگی۔

پھر بارہ ربیع الاول ہی کو اگر میلاد مخصوص کیا جائے تو اس میں کیا شرعی قباحت ہے؟ کیا کئی وہابی دیوبندی مولوی ہر سال بارہویں کی رات یا دن سیرت کانفرنس کئی سالوں سے نہیں کررہے؟

نیز دن مخصوص کرکے کوئی بھی نیک کام کرنا شرعا بالکل جائز ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے۔ چند احادیث اور مستند علمائے کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:

صحیح البخاری میں ہے

”عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ:کَانَ عَبْدُ اللّٰہ یُذَکِّرُ النَّاسَ فِیْ کُلِّ خَمِیْسٍ فَقَالَ لَہٗ رَجُلٌ:یَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ لَوَدِدْتُ اَنَّکَ ذَکَّرْتَنَا کُلَّ یَوْمٍ۔قَالَ:اَمَا اِنَّہٗ یَمْنَعُنِیْ مِنْ ذٰلِکَ اَنِّیْ اَکْرَہُ اَنْ اُمِلَّکُمْ وَاِنِّیْ اَتَخَوَّلُکُمْ بِالْمَوْعِظَۃِ کَمَا کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَخَوَّلُنَا بِھَا مَخَافَۃَ السَّامَۃِ عَلَیْنَا“

ترجمہ:حضرت ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہر جمعرات کے دن وعظ فرمایا کرتے تھے، تو ایک آدمی نے ان سے کہا کہ اے ابو عبد الرحمن!میری تمنا ہے کہ آپ روزانہ ہم کو وعظ سُنایا کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ( روزانہ وعظ کہنے سے) جو چیز مجھے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ میں تم لوگوں کو تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا اور تمہاری فرصت کا خیال رکھتا ہوں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وعظ سنانے میں ہماری فرصت کا خیال رکھتے تھے اس خوف سے کہ ہم اکتا نہ جائیں ۔ (صحیح البخاری،کتاب العلم،باب من جعل لاھل العلم ایاما معلومۃ، الحدیث 80، جلد 1، صفحہ 42، مطبوعہ کراچی)

اب دیکھیں وعظ کرنا ایک مستحب عمل ہے اور صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس عمل کو جمعرات کے لیے مخصوص کررہے ہیں،اگر حضور علیہ السلام نے منع کیا ہوتا کہ دن مخصوص کرکے کوئی نیک کام نہ کرو تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے۔

ابوداؤد شریف کی حدیث پاک ہے

”عن أبی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لاتقدموا صوم رمضان بیوم ولا یومین إلا أن یکون صوم یصومہ رجل فلیصم ذلک الصوم“

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک یا دودن قبل روزہ نہ رکھو۔البتہ جو ان دنوں روزہ رکھتا ہو وہ روزہ رکھ لے۔(سنن ابو داؤد،کتاب الصیام ،باب فیمن یصل شعبان برمضان متطوعا ،جلد2،صفحہ300،المکتبۃ العصریۃ،بیروت)

یعنی اگر کسی نے ہر جمعرات یا پیر کو نفلی روزہ رکھنے کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے، اب ہوا یوں کہ شعبان کی اٹھائیس یا انتیس تاریخ پیر والے دن آگئی تو اس دن روزہ رکھنے کی اجازت ہے ۔پتہ چلا کہ کسی دن کوروزہ،قرآن وغیرہ کی عبادت کے لئے خاص کرنا اس حدیث پاک سے ثابت ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد محترم عبدالرزاق مصنف عبد الرزاق میں روایت کرتے ہیں

”کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یأتی قبورالشہداء عند رأس الحول فیقول السلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبی الدار ، قال وکان أبو بکر وعمر وعثمان یفعلون ذلک“

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال کے شروع میں شہداء کی قبور پر تشریف لاتے تو انہیں یوں سلام کرتے تھے سلامتی ہو تم پر تمہارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا ہی خوب ملا۔حضرت ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔(مصنف عبد الرزاق ،کتاب الجنائز،باب فی زیارۃ القبور ،جلد3،صفحہ573،المکتب الإسلامی ،بیروت)

اس حدیث پاک میں حضور علیہ السلام اور صحابہ کرام کا وقت مخصوص کرکے نیک عمل کرنا بالکل واضح ہے اور وہابیوں کا خود ساختہ اصول باطل ہوگیا کہ کوئی نیک کام مخصوص وقت میں کرنا بدعت ہے۔بلکہ اس حدیث پاک سے علمائے کرام نے اولیائے عظام کا سالانہ عرس بھی ثابت کیا ہے چنانچہ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اعراس اولیاء کرام کے لیے مستند مانا اور شاہ ولی اﷲرحمۃ اللہ علیہ نے کہا ”ازینجاست حفظ اعراس مشائخ “

ترجمہ:مشائخ کے عرس منانا اس حدیث سے ثابت ہے ۔( ہمعات ہمعہ ، صفحہ58،شاہ ولی اللہ اکیڈمی، حیدر آباد پاکستان)

دن مخصوص کرکے نیک اعمال کرنا امت محمدیہ ہی نہیں بلکہ پچھلی امتوں سے بھی ثابت ہے چنانچہ اصحاب کہف کی قبروں کو وہاں کے لوگوں نے مزار بنایا تاکہ ان سے برکت حاصل کریں اور تفسیر روح البیان میں ہے

”والمذکور فی القصۃ أن الملک جعل علی باب الکہف مسجداً وجعل لہ فی کل سنۃ عیداً عظیماً“

ترجمہ: اس قصہ کے متعلق مذکور ہے کہ بادشاہ وقت نے اس دروازہ پر مسجد بنوا دی اور وہ ہر سال ان کے لئے عید عظیم منعقد کرواتا۔(روح المعانی،فی التفسیر سورۃ الکہف،سورت18،آیت21،جلد8،صفحہ225،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)

صحیح البخاری و مسلم میں ہے

”حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَرَأَى الْيَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ ، فَقَالَ : مَا هَذَا ؟ قَالُوا : هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ ، هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ ، فَصَامَهُ مُوسَى ، قَالَ : فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ “

ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء (دس محرم )کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن ( فرعون ) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے ( شریک مسرت ہونے میں ) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث 2004 صفحہ 321 مطبوعہ کراچی ،صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء رقم الحدیث 2656، صفحہ 462 مطبوعہ کراچی)

یہ حدیث بالکل واضح ہے کہ جس دن کوئی نعمت و خوشی ملی ہو اس دن کو عبادت کے لیے خاص کرنا بھی جائز ہے بلکہ دو عظیم نبیوں کا طریقہ ہے۔ اس حدیث سے میلاد شریف کو علمائے اسلاف نے ثابت کیا ہے چنانچہ حافظ اِبن حجررحمۃ اللہ علیہ کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

”وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه: قال:وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من: ’’أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا: هو يوم أغرق الله فيه فرعون، ونجي موسي، فنحن نصومه شکرًا ﷲ تعالي.فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معين من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلی اللہ علیہ وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.وعلي هذا فينبغي أن يتحري اليوم بعينه، حتي يطابق قصة موسي عليه السلام في يوم عاشوراء.ومن لم يلاحظ ذلک لا يبالي بعمل المولد في أيّ يوم في الشهر، بل توسَّع قوم حتي نقلوه إلي يوم من السنة. وفيه ما فيه. فهذا ما يتعلق بأصل عمل المولد.وأما ما يُعمل فيه فينبغي أن يقتصر فيه علي ما يفهم الشکر ﷲ تعالي من نحو ما تقدم ذکره من التلاوة، والإطعام، والصدقة، وإنشاد شيء من المدائح النبوية والزهدية المحرکة للقلوب إلي فعل الخيرات والعمل للآخرة“

ترجمہ:شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا:مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ علیہ السلام نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کرتے ہیں کہ اس دن الله تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔

اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ الله تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں الله تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔ الله تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر الله کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسی معین دن کو منایا جائے تاکہ یومِ عاشوراء کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مطابقت ہو۔

اور اگر کوئی اس چیز کو ملحوظ نہ رکھے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو ماہ کے کسی بھی دن منانے میں حرج نہیں بلکہ بعض نے تو اسے یہاں تک وسیع کیا ہے کہ سال میں سے کوئی دن بھی منا لیا جائے۔ پس یہی ہے جو کہ عملِ مولد کی اصل سے متعلق ہے۔جب کہ وہ چیزیں جن پر عمل کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ ان پر اکتفا کیا جائے جس سے شکرِ خداوندی سمجھ آئے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ (ان میں) ذکر، تلاوت، ضیافت، صدقہ، نعتیں، صوفیانہ کلام جو کہ دلوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرے اور آخرت کی یاد دلائے (وغیرہ جیسے اُمور شامل ہیں)۔(حسن المقصد في عمل المولد صفحہ 63، 64 مطبوعہ بیروت، سيوطي، الحاوي للفتاوي صفحہ 205، 206 مطبوعہ دار الفکر بیروت،سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلی اللہ علیہ وسلم جلد 1 صفحہ 366 مطبوعہ مصر، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية جلد 1 صفحہ 263 مطبوعہ بیروت،السيرة النبوية،احمد بن زيني دحلان جلد 1 صفحہ 54 مطبوعہ دار الکتب الاسلامیہ)

اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’اب وقت معیّن کرنے سے متعلق گفتگو کرنی ہے جس کا لوگوں میں رواج ہے، جیسے سوم ، چہلم، ایک سال چھ ماہ، اقول و بحول اﷲا صول ( میں کہتا ہوں اور خدا ہی کی دی ہوئی قوت سے حملہ کرتا ہوں۔) توقیت یعنی کسی کام کے لیے وقت مقرر کرنے کی دو صورتیں ہیں: (1) شرعی اور (2) عادی۔

(1) شرعی یہ کہ شریعت مطہرہ نے کسی کام کے لیے کوئی وقت مقرر فرمایا ہے کہ(۱)جواس کے علاوہ وقت میں وہ ہو ہی نہیں سکتا او راگر کریں تو وہ عمل شرعی ادانہ ہوگا۔ جیسے قربانی کے لیے ایام نحر۔

(۲) یا یہ کہ اس وقت سے اس عمل کو مقدم یا مؤخر کرنا ناجائز ہو، جیسے احرام حج کے لیے حرمت والے مہینے (شوال، ذی قعدہ، ذوالحجہ)۔

(۳) یا یہ کہ اس وقت میں جو ثواب ہو وہ دوسرے وقت میں نہ ملے ، جیسے نمازعشاء کے لیے تہائی رات۔

(2) عادی یہ کہ شریعت کی جانب سے کوئی قید نہیں جب چاہیں عمل میں لائیں۔لیکن حدث (کام ہونے)کے لیے زمانہ ضروری ہے اور زمانہ غیر معین میں وقوع محال عقلی ہے۔۔۔۔

ہوشیار اے طالبان حق ان کو، ان کی سرکشی اور زیادتی میں چھوڑ اور اثار واحادیث کی جانب متوجہ ہو تاکہ ہم کچھ تعیناتِ عادیہ تجھے سنائیں

’’ازین قبیل ست انچہ درحدیث آمد کہ حضورپرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم زیارتِ شہدائے احد را سرسال مقرر فرمودن کما سیأتی وآمدن مسجد قبارا روز شنبہ؎کما فی الصحیحین عن ابن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما وروزہ شکر رسالت را روز دوشنبہ کما فی صحیح مسلم عن ابی قتادۃ رضی اﷲتعالیٰ عنہ وباصدیق اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ مشاورہ دینی صبح وشام کما فی صحیح البخاری عن ام المؤمنین الصدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا وانشائے سفر جہاد را پنچشنبہ کما فیہ عن کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ وطلبِ علم را دوشنبہ کما عند ابی الشیخ وابن حبان والدیلمی بسند صالح عن انس ابن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ‘‘

ترجمہ:اسی قبیل سے ہے جو حدیث میں آیا کہ حضور پر نور سید عالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد کی زیارت کیلئے سال کا شروع وقت مقرر فرمالیا تھا جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے۔ اور سنیچر کے دن مسجد قبا میں تشریف لانا، جیسا کہ صحیحین(بخاری ومسلم)میں حضرت ابن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔ اور شکرِ رسالت کیلئے دوشنبہ کاروزہ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو قتادہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔اور صدیق اکبر رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے دینی مشاورت کے لیے وقتِ صبح وشام کی تعیین جیسا کہ صحیح بخاری میں اُمّ المومنین صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا سے مروی ہے۔ اور سفر جہاد شروع کرنے کے لیے پنچشنبہ کی تعیین جیسا کہ اسی صحیح بخاری میں حضرت کعب بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی ہے ۔ اورطلب علم کے لئے دو شنبہ کی تعیین جیسا کہ ابوالشیخ ، ابن حبان اور دیلمی نے بسند صالح حضرت انس ابن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کی

’’و عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وعظ وتذکیر را روز پنجشنبہ کما فی صحیح البخاری عن وائل وعلماء ہدایت درس را روز چہار شنبہ کما فی تعلیم المتعلم للامام برھان الاسلام الزر نوجی حکایت کردش ازاُستاد خود امام برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ وگفت ھکذا کان یفعل ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ صاحب تنزیہہ الشریعۃ فرمود وکذا کان جماعۃ من اھل العلم‘‘

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے وعظ وتذکیر کے لیے پنچشنبہ کا دن مقرر کیا جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابوا وائل سے مروی ہے۔اور علما نے سبق شروع کرنے کے لیے بدھ کا دن رکھا جیساکہ امام برہان الاسلام زرنوجی کی تعلیم المتعلم میں ہے۔ انہوں نے اپنے استاد امام برہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ سے اس کی حکایت فرمائی اور کہا کہ اسی طرح امام ابوحنیفہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے، صاحب تنزیہہ الشریعۃ نے فرمایا اوراسی طرح ایک جماعت کے علماء کا دستور رہا ہے۔

یہاں مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(جو وہابی حضرات کے نسبی چچا، علمی باپ اور طریقت میں دادا تھے)کا کلام سننے کے قابل ہے۔ تفسیر عزیزی میں قولِ باری عزوجل{وَ الْقَمَرِ اِذَا اتَّسَق}کے تحت فرماتے ہیں

’’وارد ہے کہ مُردہ اس حالت میں کسی ڈوبنے والے کی طرح فریاد رس کا منتظر ہوتا ہے اور اس وقت صدقے، دعائیں اور فاتحہ اسے بہت کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ، موت سے ایک سال تک، خصوصاً چالیس دن تک اس طرح کی امداد میں بھر پور کوشش کرتے ہیں۔

شاہ صاحب ’’رسالہ ذبیحہ‘‘میں جو مجموعہ زبدۃ النصائح میں چھپا ہے اس طعن کے جواب میں فرماتے ہیں

’’قولہ عروس بزرگان خود الخ‘‘یہ طعن مطعون علیہ کے حالات سے بے خبری پر مبنی ہے اس لئے شریعت میں مقررہ فرائض کے سوا کسی کا م کو کوئی فرض نہیں جانتا(یعنی کوئی مسلمان فاتحہ وغیرہ کو فرض و واجب نہیں جانتا)۔ ہاں قبورِ صالحین کی زیارت، قرآن ، دعائے خیر اور تقسیم شرینی وطعام سے ان کی امداد باجماع علماء مستحسن اور اچھا عمل ہے۔اور روز عرس کا تعین اس لئے ہے کہ وہ دن دارالعمل سے دارالثواب کی جانب ان کے انتقال فرمانے کی یاد دہانی کرنے والا ہے ورنہ جس دن بھی یہ کام ہو فلاح ونجات کا سبب ہے۔ اور خلف پر لازم ہے کہ اپنے سلف کے لئے اسی طرح کی بھلائی اور نیکی کرتا رہے۔ پھر سال کے تعین اور اس کے التزام کے سلسلے میں احادیث سے سند ذکر فرمائی کہ ابن المنذر اور ابن مردویہ نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم ہر سال احد تشریف لاتے، جب درہ کوہ پر پہنچتے تو شہیدوں کی قبر پر سلام کرتے اورفرماتے تمہیں سلام ہو ،تمہارے صبر پر کہ دارِ آخرت کیا ہی عمدہ گھر ہے۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ ،جلد9،صفحہ580۔۔۔۔،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

حاشیہ فتاوٰی امجدیہ میں مولانا آل مصطفیٰ مصباح صاحب فرماتے ہیں:

’’ایصالِ ثواب میں معین تاریخ ہو مثلا روز وفات یا غیر معین تاریخ میں، بلاشبہ جائز و مباح ہے۔ شریعت طاہرہ میں اس کے منع پر کوئی دلیل نہیں۔ معین تاریخوں میں ایصالِ ثواب کرنا محض دیوبندیوں اور وہابیوں کی نئی شریعت میں بدعت و ناجائز ہے چنانچہ دیوبندی پیشوا مولوی رشید احمد گنگوہی نے ’’فتاوٰی رشیدیہ،صفحہ141میں لکھا۔’’گیارہویں بھی بدعت ہے ۔‘‘دوسری جگہ لکھا’’ثواب میت کو پہنچانا جب تخصیصات اور التزامات مروجہ ہوں تو نادرست اور باعث مواخذہ ہو جاتا ہے۔‘‘امام الطائفہ مولوی اسماعیل دہلوی نے’’ تقویت الایمان‘‘ میں یہاں تک لکھدیا’’حاجت برآری کے لئے ان کی(پیر، پیغمبر،امام،شہید)نذر ونیاز شرک۔‘‘

آج بھی دیوبندی،وہابی حضرات اپنے اکابرین کے ان غلط فتووں پر عمل پیرا ہیں ۔ یہاں چند اصولی باتیں بتا کر معین تاریخوں میں ایصالِ ثواب کرنے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔

تخصیص وتعیین دو طرح کی ہوتی ہے:۔(1) تخصیص شرعی (2) تخصیص عادی

پھر شرعی کی دو قسمیں ہیں(۱) شرعی غیر منفک (۲) شرعی منفک۔

(الف) تخصیص شرعی غیر منفک: شریعت کی جانب سے ایسی تخصیص کہ مخصوص ایام کے علاوہ درست ہی نہ ہو، جیسے ایام نحر قربانی کے لئے۔

(ب) تخصیص شرعی منفک: شرعا تخصیص تو ہو مگر ایام مخصوصہ یا اوقات مخصوصہ کے علاوہ دیگر ایام و اوقات میں بھی درست ہو جیسے روزہ،نماز وغیرہ۔

(2) تخصیص عادی: شریعت کی جانب سے کوئی تخصیص نہیں، بندہ جب چاہے کرے۔ جیسے صدقات،خیرات وغیرہ۔ ایصال ثواب کے لئے دن کی تخصیص و تعیین بھی ’’عادی‘‘ ہے اور اس کی تخصیص میں شرعا نہ کوئی قباحت اور نہ ہی شناعت جیسے دن معین کرکے نماز ،رو ز ہ کی منت ۔ظاہر ہے کہ جب بھی ایصال ثواب کیا جائے گا خاص ہیئت اور خاص زمانہ ہی میں ہوگا۔ یونہی اگر اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنا منظور ہو توتاریخ کے تعیین کے بغیر شرکت دشوار ہوگی ۔جس طرح مساجد میں جماعت کے لئے وقت متعین کیا جاتا ہے تاکہ نمازی وقت پر حاضر ہو کر جماعت سے نماز ادا کرسکیں۔ یہ ایسے ہی جیسے دیوبندی اپنے جلسوں کی اور تبلیغی جماعت والے اپنے اجتماع کی تاریخ متعین کرتے ہیں۔

وفات کی تاریخ کو ایصالِ ثواب کے لئے خصوصیت کے ساتھ اس لئے متعین کیا جاتا ہے کہ وہ دن مرنیوالے کی وفات کی یاد دلاتا ہے۔ کوئی سنی مسلمان تعینِ یوم کو واجب نہیں سمجھتا۔ اس طرح کے افعال میں تعینِ یوم خود سرکار کائنات حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے چنانچہ ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے ’’ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یاتی قبور الشھداء باحد علی رأس کل حول‘‘حضور اقدس ہر سال کے سِرے (شروع)پر شہدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے تھے۔

مسلم شریف میں پیر کے دن روزہ رکھنے سے متعلق یہ حدیث مذکور ہے

’’ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سئل عن صوم الاثنین فقال فیہ ولدت و فیہ انزل علی ‘‘

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔

الغرض یہ سب توقیتات عادیہ سے ہیں جسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان مخصوص ایام کے علاوہ دوسرے ایام میں درست نہیں۔ اور نہ ہی کوئی سنی مسلمان معین دن میں ایصالِ ثواب کرنے کو واجب و ضروری سمجھتا ہے ۔ اس لئے ایصال ثواب خواہ روز وفات کی تعیین و تخصیص کے ساتھ کیا جائے یااس کے بغیر مطلقا جائز ہے۔‘‘(فتاوٰی امجدیہ،جلد4،صفحہ177،مکتبہ رضویہ ،کراچی)

وہابی حضرات کسی ایک حدیث یا کسی صحابی کے قول بلکہ کسی جیدمحدث و فقیہ کے قول سے ثابت کردیں کہ انہوں نے فرمایا ہو کہ کوئی کام دن مخصوص کرکے کرنا ناجائز و بدعت ہے۔یقینا وہابی حضرات نہ یہ ثابت کر پائے ہیں اور نہ کبھی ثابت کرپائیں گے۔اگر دن مخصوص کرکے کام کرنا ناجائز ہے تو پھر تمام وہابیوں کے نکاح بھی ناجائز ہوئے کہ وہ بھی دن مخصوص کرکے ہوئے ہوں گے،ان کا جو دینی اجتماع ہوتا ہے وہ بھی ناجائز ہوا۔

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

09 ربیع الاول1445ھ/26ستمبر2023 ء

اپنا تبصرہ بھیجیں